طبی ماہرین نے اسٹیم سیلز کی مدد سے لیبر کانجینیٹل اماؤروسس نامی نایاب اور شدید جینیاتی آنکھ کی بیماری کا لیبارٹری ماڈل تیار کر لیا ہے، جو مستقبل میں بچوں میں اندھے پن کے علاج میں اہم پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے۔
طبی ویب سائٹ کے مطابق محققین نے اپنی تحقیق میں RPGRIP1 نامی جین پر خصوصی توجہ دی، جو آنکھ میں روشنی محسوس کرنے والے خلیوں یعنی فوٹوریسیپٹرز کی نشوونما اور بقا کے لیے نہایت ضروری ہے۔
اس جین میں خرابی آنے کی صورت میں بچوں کی بینائی شدید متاثر ہو جاتی ہے۔ محققین نے اس پیچیدہ بیماری کو بہتر طور پر سمجھنے اور اس کے علاج کے ممکنہ راستے تلاش کرنے کے لیے اسٹیم سیلز پر مبنی تجرباتی ماڈل تیار کیا ہے۔
اس بیماری کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ RPGRIP1 جین کی کئی مختلف اقسام موجود ہیں جن میں متعدد تبدیلیاں پائی جاتی ہیں۔
یہی تبدیلیاں بیماری کی درست تشخیص میں رکاوٹ بنتی ہیں، کیونکہ یہ واضح نہیں ہو پاتا کہ کن تغیرات کا تعلق بیماری سے ہے اور کن کا نہیں۔
اب ماہرین نے لیبارٹری میں اسٹیم سیلز سے تھری ڈی ریٹِنل آرگنائڈز کامیابی سے تیار کیے ہیں۔
یہ ایسے خلیاتی ڈھانچے ہیں جو انسانی آنکھ کے ریٹینا کی ساخت اور افعال کی نقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور مستقبل میں اندھے پن کے علاج کو نئی سمت دے سکتے ہیں۔
تیار کیے گئے مذکورہ چھوٹے نمونوں کی بدولت ماہرین یہ جان سکتے ہیں کہ RPGRIP1 کی خرابی آنکھ میں کیسے بیماری کو جنم دیتی ہے جب کہ دیگر پیچیدگیوں کو بھی جانا جا سکتا ہے۔
تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع ہے جب ایسے انسانی ریٹائنل ماڈلز تیار کیے گئے ہیں جو نہ صرف مریض سے لیے گئے اسٹیم سیلز بلکہ جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خلیوں کے ساتھ بنائے گئے ہیں۔
مذکورہ ماڈل تیار کیے جانے کے بعد امید ظاہر کی گئی ہے کہ جین تھراپی مستقبل میں ان بچوں کی بینائی کو بحال کرنے کا ایک ممکنہ حل بن سکتی ہے، چاہے وہ آنکھیں بہت چھوٹی عمر میں متاثر ہو چکی ہوں۔