دریائے راوی کے قریب اسکول عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیے گئے

دریائے راوی کے اطراف کی بستیوں میں واقع سرکاری اسکولوں کو سیلاب زدہ خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا فائل فوٹو دریائے راوی کے اطراف کی بستیوں میں واقع سرکاری اسکولوں کو سیلاب زدہ خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا

دریائے راوی کے اطراف کی بستیوں میں واقع سرکاری اسکولوں کو سیلاب زدہ خاندانوں کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ کلاس رومز میں بلیک بورڈ اور بینچوں کی جگہ گدے، کپڑوں کے بنڈل اور برتن رکھے گئے ہیں، جو لوگ پانی کے گھروں اور کھیتوں کو بچانے میں کامیاب ہوئے۔

بھاری مون سون بارشوں اور بھارت کی طرف سے آنے والے پانی کے ریلوں نے دریائے راوی کو پھیلایا، جس نے درجنوں کنارے کی بستیوں کو زیرِ آب کر دیا۔

ہزاروں دیہاتی، جن میں زیادہ تر دہاڑی دار مزدور اور چھوٹے کاشتکار ہیں، اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

حکومت کے قائم کردہ اسکولوں میں امدادی کیمپ بنائے گئے، مگر حالات مشکل ہیں۔ خاندان صاف پانی کی کمی، ناقص صفائی اور ناکافی سامان کی شکایت کرتے ہیں۔

اگرچہ حکام کا کہنا ہے کہ طبی ٹیمیں موجود ہیں، والدین نے بتایا کہ بچوں کو غیر صحت بخش حالات کی وجہ سے خارش اور بخار ہو رہا ہے، جبکہ خواتین ٹوٹی پھوٹی یا گندے واش رومز پر نالاں ہیں۔

رضاکار اور فلاحی تنظیمیں کھانا اور کپڑے فراہم کر رہی ہیں، لیکن بے گھر خاندان امداد کو ناکافی سمجھتے ہیں۔

شاہدرہ میں ایک این جی او کے ’ٹینٹ ولیج‘ میں خواتین نے بھی یہی خدشات ظاہر کیے کہ بیت الخلا نہیں اور پرائیویسی کا فقدان ہے، جس سے بچوں میں جلدی امراض بڑھ رہے ہیں۔

چوہنگ کے سرکاری کیمپ میں مقیم اعجاز احمد نے بتایا کہ ان کی دو بھینسیں ڈوب گئی ہیں، جو ان کی روزی روٹی کا ذریعہ تھیں، اور وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ واپسی کے بعد اپنے خاندان کو کیسے کھلائیں گے۔

اعجاز کی طرح کئی خاندان واپس جانے کے بارے میں فکر مند ہیں، ان کا سب سے بڑا خوف صرف دوبارہ انہی سیلابی علاقوں میں تعمیرات نہیں بلکہ امداد ختم ہونے کے بعد زندہ رہنے کا ہے۔

صغراں بی بی پوچھتی ہیں کہ چاہے پانی اُتر بھی جائے، ہمارے گھروں کو دوبارہ بنانے میں کون مدد کرے گا؟ حکومت ہمیں یہاں کھانا دے رہی ہے، لیکن جب ہم واپس جائیں گے تو ہمیں کون کھلائے گا؟۔

حکام بھی اس چیلنج کو سنگین قرار دیتے ہیں، ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) آفس کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ ہم نے لاہور میں ایک درجن سے زیادہ امدادی کیمپ قائم کیے ہیں۔

کھانا اور طبی امداد فراہم کر رہے ہیں، لیکن بے دخلی کا پیمانہ بہت بڑا ہے اور ہم اب بھی نقصان کا اندازہ لگا رہے ہیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لاہور کے اسکولوں میں 18 امدادی کیمپ قائم ہیں، جن میں کم از کم 4 ہزار 150 افراد مقیم ہیں۔

اس وقت ساندا، بابو صابو، گلشنِ راوی اور شیرکوٹ کے 5 کیمپوں میں 900 افراد، تحصیل رائیونڈ کے علاقوں منگا ہتھر اور محلنوال کے 3 کیمپوں میں 2 ہزار 350 افراد، تحصیل راوی کے علاقوں شاہدرہ، جیا موسیٰ اور ہربو جبو میں 800 افرادجب کہ تحصیل علامہ اقبال ٹاؤن کے علاقوں چوہنگ، شاہ پور، نیاز بیگ اور مریدوال میں 100 افراد مقیم ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ واہگہ تحصیل کے اسکول میں قائم کیے گئے کیمپ میں ابھی تک کوئی خاندان منتقل نہیں ہوا۔

حکام کا کہنا ہے کہ اب تک 26 ہزار 65 افراد اور 3 ہزار 222 جانوروں کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکالا جا چکا ہے، مزید 65 اسکولوں کو ضرورت پڑنے پر امدادی کیمپ کے طور پر شناخت کیا جاچکا ہے۔

ماحولیاتی ماہرین زور دیتے ہیں کہ یہ بحران محض وقتی امداد سے نہیں سنبھل سکتا، وہ دریا کے کناروں پر فلڈ پروٹیکشن، مؤثر وارننگ سسٹم اور نازک بستیوں کی منتقلی کے پروگرام میں سرمایہ کاری پر زور دیتے ہیں۔

جب تک ایسا نہیں ہوتا، اسکولوں کے کلاس روم ان خاندانوں سے بھرے رہیں گے، جو کبھی راوی کے کنارے کو اپنا گھر کہتے تھے، یہ لوگ صرف اس بات کے منتظر نہیں کہ پانی اُترے بلکہ اس بات کے بھی منتظر ہیں کہ ان کا مستقبل کمزور نہ رہے۔

install suchtv android app on google app store