امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کے دیگر ارکان کا شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اُن کی انتظامیہ کے تیار کردہ ’غزہ منصوبے‘ کی منظوری دی، جس کا مقصد غزہ کو طویل المدتی استحکام کی جانب لے جانا ہے۔ انہوں نے اس ووٹ کو اقوامِ متحدہ کی تاریخ کی سب سے بڑی منظوریوں میں سے ایک قرار دیا۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر جاری بیان میں صدر ٹرمپ نے چین اور روس کا بھی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، اگرچہ دونوں ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
ٹرمپ نے اپنے پیغام میں لکھا کہ سلامتی کونسل کی “ناقابلِ یقین ووٹنگ” پر پوری دنیا مبارکباد کی مستحق ہے، کیونکہ اس نے بورڈ آف پیس کو تسلیم اور منظور کیا ہے، جس کی سربراہی وہ خود کریں گے۔ انہوں نے اسے تاریخی لمحہ قرار دیا۔
نیویارک میں پیر کی شام منظور ہونے والی قرارداد میں ایک کثیرمرحلہ فریم ورک شامل ہے، جس میں بورڈ آف پیس کا قیام اور غزہ میں عالمی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کی تعیناتی شامل ہے۔
یہ فورس جنگجو عناصر کو غیر مسلح کرنے کی نگرانی کرے گی اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب منتقلی میں بھی مدد فراہم کرے گی۔
صدر ٹرمپ نے کونسل کے باہر اُن ممالک کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس منصوبے کی تائید کی، جن میں قطر، مصر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، انڈونیشیا، ترکی اور اردن شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ چند ہفتوں میں بورڈ آف پیس کی مکمل رکنیت کا اعلان کیا جائے گا، اور وہ پہلے ہی سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر جو اس تصور کے محرک ہیں کو ممکنہ رکن کے طور پر ذکر کر چکے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ کی تیار کردہ 20 نکاتی پیشکش پر گزشتہ ماہ اسرائیل اور خطے کے شراکت داروں نے اتفاق کیا تھا، جس کے مطابق بورڈ آف پیس جنگ کے بعد غزہ کو سیاسی استحکام، تعمیر نو اور ریاست کے قیام کی طرف لے جائے گا۔
پیشکش میں آئی ایس ایف کو ضروری اقدامات اٹھانے کا اختیار دیا گیا ہے، جس کا مطلب اقوامِ متحدہ کی اصطلاح میں فوجی طاقت کے استعمال کی منظوری ہے، تاکہ سرحدوں کو محفوظ بنایا جائے، تصدیق شدہ فلسطینی پولیس یونٹوں کی مدد کی جائے اور انسانی امداد کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے۔
قرارداد کے مطابق، جیسے جیسے استحکام فورس اپنا کنٹرول بڑھائے گی اور امن و امان قائم ہوگا، غزہ کی مقامی تنظیموں کے غیر مسلح ہونے سے متعلق طے شدہ معیار اور ٹائم لائن کے مطابق اسرائیلی افواج مرحلہ وار انخلا کریں گی۔ ان پیمانوں کا تعین آئی ایس ایف، اسرائیل، امریکا اور جنگ بندی کے ضامن ممالک مشترکہ طور پر کریں گے۔
سلامتی کونسل میں پاکستان نے قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس منصوبے کو فلسطینی ریاست کے قیام کی حقیقی پیش رفت میں تبدیل کرنے کو یقینی بنائے۔
کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ دنیا کو ایک قابلِ اعتماد اور محدود مدت کے فریم ورک کی حمایت کرنی چاہیے جو ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ ہموار کرے۔
انہوں نے واضح کیا کہ نہ کوئی الحاق ہونا چاہیے اور نہ ہی جبری نقل مکانی؛ ساتھ ہی مغربی کنارے اور غزہ کے درمیان جغرافیائی تسلسل کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے قرارداد کا خیرمقدم کیا اور اسے جنگ بندی کے استحکام کی جانب اہم قدم قرار دیا۔
ایک علیحدہ بیان میں انہوں نے تمام فریقوں سے امریکی منصوبے کے دوسرے مرحلے کی طرف بڑھنے کی اپیل کی، جو دو ریاستی حل کے حصول کے لیے سیاسی عمل کا آغاز کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ قرارداد کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے، جس میں غزہ کی بڑی شہری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسانی امداد کے کاموں کو بڑھانا بھی شامل ہے۔
اگرچہ روس اور چین نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، مگر دونوں نے سخت اعتراضات اٹھائے۔
اقوامِ متحدہ میں روس کے مندوب واسیلی نیبینزیا نے کہا کہ قانونی امور سے متعلق اہم نکات نظر انداز کر دیے گئے ہیں اور خبردار کیا کہ آئی ایس ایف ایسا بااختیار نظر آتا ہے کہ وہ رام اللہ کی پوزیشن یا رائے کی پرواہ کیے بغیر مکمل خودمختاری کے ساتھ عمل کر سکتا ہے۔
انہوں نے دلیل دی کہ یہ قرارداد نوآبادیاتی طرزِ عمل کی یاد دلاتی ہے، جو برطانوی مینڈیٹ کے دور میں دیکھنے میں آتے تھے، جہاں فلسطینیوں کی رائے کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔
چین کے مندوب فو کونگ نے کہا کہ متن کئی پہلوؤں سے کمزور اور انتہائی تشویش ناک ہے۔
انہوں نے جنگ کے بعد غزہ کے لیے پیش کیے گئے گورننس انتظامات پر تنقید کی، اور کہا کہ اس میں فلسطین بمشکل دکھائی دیتا ہے، اور فلسطینی خودمختاری کو مکمل طور پر نہیں سراہا گیا۔
اگرچہ اسرائیل نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کا خیرمقدم کیا، لیکن حماس نے اس قرارداد کو مسترد کر دیا کیوں کہ اس کے مطابق یہ فلسطینیوں کے مطالبات اور حقوق کا احترام نہیں کرتی۔
اپنے بیان میں گروپ نے کہا یہ قرارداد ہمارے فلسطینی عوام کے سیاسی اور انسانی حقوق اور مطالبات کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔
بیان میں اس بین الاقوامی فورس کے قیام پر بھی اعتراض کیا گیا جس کا مشن ’فلسطینی گروہوں کے غیر مسلح کرنے‘ کو شامل کرتا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ قرارداد غزہ کی پٹی پر ایک بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرتی ہے، جسے ہمارے عوام، اس کی مزاحمتی قوتیں اور گروہ مسترد کرتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے منگل کے روز ٹرمپ کے منصوبے کی تعریف کی، اور کہا کہ یہ منصوبہ غزہ کو مکمل غیر مسلح کرنے، اسلحے کے مکمل خاتمے اور ڈی ریڈیکلائزیشن پر زور دینے کی وجہ سے امن اور خوشحالی کی طرف لے جائے گا۔
ایکس پر نیتن یاہو کے دفتر نے کہا کہ یہ منصوبہ ابراہام معاہدوں کی توسیع کا باعث بنے گا۔