امریکی محکمہ انصاف نے حال ہی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری کیے گئے کئی معافی ناموں پر موجود دستخط خاموشی سے تبدیل کر دیے ہیں۔ یہ قدم اس وقت اٹھایا گیا جب آن لائن صارفین نے نشاندہی کی کہ مختلف معافی ناموں پر بالکل ایک جیسے دستخط موجود ہیں۔ یہ معافی نامے 7 نومبر کے تھے اور سابق بیس بال اسٹار ڈیرل اسٹرابیری، سابق ٹینیسی اسپیکر گلین کیسادا اور نیویارک پولیس کے سابق سارجنٹ مائیکل مک میہن سمیت کئی افراد کو دیے گئے تھے۔
ماہرین نے بھی تصدیق کی کہ ابتدائی طور پر اپ لوڈ کیے گئے معافی ناموں پر دستخط ایک جیسے تھے۔
چند گھنٹوں کی تنقید کے بعد محکمہ انصاف نے دستاویزات ویب سائٹ سے ہٹا کر نئی کاپیاں اپ لوڈ کیں، جن پر ہر معافی نامے پر مختلف دستخط موجود تھے۔
محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے تمام معاف ناموں پر خود دستخط کیے تھے، لیکن ایک “ٹیکنیکل غلطی” کی وجہ سے ایک ہی دستخط کئی دستاویزات پر ظاہر ہو گئے۔
محکمہ کا مؤقف ہے کہ اس غلطی سے معافیوں کی قانونی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
محکمے کے ترجمان چاڈ گل مارٹن نے کہا، “ڈیموکریٹس کے شٹ ڈاؤن کی وجہ سے عملے کی کمی تھی، جس کے باعث ایک ہی دستخط والا ورژن بار بار اپ لوڈ ہو گیا۔
اصل میں ٹرمپ نے سبھی معافی نامے خود دستخط کیے تھے۔”
وائٹ ہاؤس کی ترجمان ایبیگیل جیکسن نے بھی کہا کہ ٹرمپ ہمیشہ ہر معافی نامے پر ہاتھ سے دستخط کرتے ہیں اور میڈیا پر تنقید کی کہ اسے ‘بائیڈن کے آٹو پین دستخطوں’ کی تحقیقات کرنی چاہیے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ خود صدر بائیڈن کی آٹو پین ڈیوائس کے ذریعے کیے گئے دستخطوں پر شدید تنقید کرتے رہے ہیں، اور ریپبلکن پارٹی نے اسے “امریکی تاریخ کے بڑے اسکینڈلز” میں شمار کیا تھا۔
ٹرمپ کے دستخطوں سے متعلق سوالات کے بعد ڈیموکریٹس بھی سامنے آگئے ہیں۔ کانگریس کی ہاؤس اوور سائٹ کمیٹی کے رکن ڈیو من نے کہا، “ہمیں جاننے کی ضرورت ہے کہ وائٹ ہاؤس چلا کون رہا ہے، لگتا ہے ٹرمپ کا ذہنی کنٹرول کمزور پڑ رہا ہے۔”
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدارتی معافی کا اعتبار دستخط کے طریقہ کار سے متاثر نہیں ہوتا، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ صدر نے معافی دینے کا “ارادہ” کیا تھا۔
اب تک ٹرمپ کی زیادہ تر معافیاں اُن سیاسی اتحادیوں، بڑے عطیہ دہندگان اور مقدمات میں سزا پانے والوں کو ملی ہیں جو خود کو “محکمہ انصاف کے سیاسی انتقام” کا شکار قرار دیتے رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے ماضی میں موجود غیر سیاسی جائزہ نظام کو تقریباً نظر انداز کر رکھا ہے۔
معافی پانے والوں میں منشیات اور ٹیکس چوری کے مقدمات میں سزا یافتہ سابق بیس بال اسٹار ڈیرل اسٹرابیری، فراڈ اور سرکاری فنڈز کے غلط استعمال پر سزا یافتہ سابق ریاستی اسپیکر گلین کیسادا، چین کے لیے غیر قانونی ایجنٹ کے طور پر کام کرنے کے جرم میں 18 ماہ قید پانے والے مائیکل مک میہن شامل ہیں۔
مک میہن کے وکیل نے کہا کہ انہیں بھی اس تبدیلی کا علم میڈیا کے ذریعے ہوا، مگر ان کے مطابق “ہمیں معلوم تھا کہ صدر ٹرمپ نے ہی معافی دی ہے۔”