شوگر کے مریضوں کیلئے آبِ حیات

انسولین فائل فوٹو انسولین

سر سید انسٹی ٹیوٹ آف ڈائبیٹیزاینڈ انڈوکرینولوجی کے سربراہ ضمان شیخ نے ایک تقریب میں میڈیکل کالج کےطالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ شوگر کے مریضوں کیلئے انسولین آبِ حیات سے کم نہیں ہے۔ پاکستان کے 27.4 فیصد لوگ شوگر جیسی خطرناک بیماری کی زد میں ہیں۔

سرسید کالج آف میڈیکل سائنسز کے چئیرمین افضل معین اس تقریب میں مہمان خصوصی تھے۔ تقریب میں ظہیر معین، پروفیسر اعجاز مہرہ، پروفیسر انیس بھٹی، ڈاکٹر نیاز بروھی اور خالد خلیل بھی شامل تھے۔

پروفیسر شیخ نے کہا کہ انسولین کو 1992 میں شوگر کے مرض میں مبتلا مریضوں کیلئے متعارف کرایا گیا۔ انھوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ یومِ انسولین نومبر 14 کو منایا جاتا ہے، جو کہ سر فریڈرک بینٹنگ کی سالگرہ کا دن ہے جنھوں نے انسولین کی ایجاد کی تھی۔ انسولین کی ایجاد سے قبل شوگر کے مرض میں مبتلا ہزاروں لوگ جان کی بازی ہار جاتے تھے۔ 

پروفیسر شیخ نے  اپنی بات جاری رکھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ شوگر کے مریضوں کیلئے انسولین ایک قیمتی دوا ہے۔ خاص کر پاکستان کے لوگوں کیلئے جو کہ مالی اور طبی طور پہ اس خطرناک مرض سے جنگ لڑ رہے ہیں۔  طب کی زبان میں اس بیماری کو سائلینٹ کلر کہا جاتا ہے کیونکہ شروع کے دو سال اسکی علامات ظاہر نہیں ہوتی پھر آہستہ آہستہ یہ ظاہر ہونے لگتی ہے اور بروقت اس پہ قابو نہ پایا جائے تو خطرناک شکل اختیار کر لیتی ہے۔

پروفیسر شیخ نے اس بیماری کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شوگر کے نقصانات میں گردوں کا ضائع ہونا، جسم پر کالے اور نیلے نشانات اور دل کی بیماری شامل ہے۔ اس بیماری کی روک تھام کیلئے یہ ضروری ہے کہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق چلا جائے۔

شوگر کو روزمرہ کی بنیاد پر چیک کرنا چاہئیے۔ شوگر چیک کرنے کیلئے گلوکومیٹر (glucometer) استعمال کیا جاتا ہے۔ جو کہ قریبی میڈیکل سٹورز میں آسانی سے میسر ہے۔ glucometer میں سوئیوں کا استعمال نہیں ہوتا کیونکہ اسں میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جو جسم کے کسی بھی حصہ پر رکھنے سے باآسانی شوگر لیول بتا دیتی ہے۔ 

 

 

install suchtv android app on google app store