صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ نے وینزویلا کے ساحل کے قریب ایک بڑے آئل ٹینکر کو قبضے میں لے لیا ہے۔ امریکی حکام کے مطابق اس کارروائی کے دوران کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ سی این این کے مطابق، اس ٹینکر کا الزام ہے کہ یہ ایرانی خام تیل کی اسمگلنگ میں استعمال ہو رہا تھا۔ اگرچہ پہلے امریکی حکام نے اس جہاز کے لیے وارنٹ جاری کیے تھے، لیکن اب اسے تحویل میں لے لیا گیا ہے۔
وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اس قبضے کی تصدیق کی اور کہا کہ وینزویلا کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی اٹارنی جنرل پم بانڈی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکی اہلکار ہیلی کاپٹروں سے رسیوں کے ذریعے ٹینکر پر اترتے ہیں اور مسلح ہو کر جہاز کا کنٹرول سنبھالتے ہیں۔
ایک سینئر امریکی فوجی اہلکار کے مطابق اس آپریشن میں دو ہیلی کاپٹر، 10 کوسٹ گارڈ اہلکار، 10 میرینز اور خصوصی دستوں نے حصہ لیا۔
بانڈی نے کہا کہ ایف بی آئی، ہوم لینڈ سیکیورٹی اور کوسٹ گارڈ نے وزارت دفاع کی مدد سے کارروائی محفوظ طریقے سے مکمل کی اور تحقیقات جاری ہیں۔
جب ٹینکر پر موجود تیل کے بارے میں سوال کیا گیا تو صدر ٹرمپ نے مختصر جواب دیا، "شاید ہم اسے رکھ لیں"، تاہم تفصیلات سے گریز کیا۔
حکام نے تصدیق کی کہ یہ کارروائی بین الاقوامی پانیوں میں ہوئی۔
ٹینکر کا نام اسکِپر ہے، جو وینزویلا کا خام تیل لے کر جا رہا تھا اور پہلے ایرانی تیل کی اسمگلنگ میں بھی شامل رہا، جس کی بنیاد پر امریکی عدالت نے قبضے کا وارنٹ جاری کیا تھا۔
حکام کے مطابق یہ ٹینکر پہلے کیوبا جا رہا تھا، جہاں سے اس کا تیل ایشیا بھیجا جانا تھا۔ امریکی اہلکار نے مزید کہا کہ مادورو حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے آئندہ ہفتوں میں مزید ایسی کارروائیاں بھی ممکن ہیں۔
صدر ٹرمپ نے سی این این کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ان کی وینزویلا کے صدر نیکولاس مادورو سے حال میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ ٹینکر کا مالک کون ہے۔
دوسری جانب وینزویلا کی حکومت نے امریکی کارروائی کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے ’بین الاقوامی سمندری ڈاکا‘ قرار دیا ہے۔
سرکاری بیان میں کہا گیا کہ امریکا کی اصل دلچسپی وینزویلا کے قدرتی وسائل میں ہے، نہ کہ انسانی حقوق، جمہوریت یا منشیات کے خاتمے میں۔