امریکا اور اسرائیل میں خوف، اہم ٹیکنیکل ہتھیار کھو دیا

امریکا اور اسرائیل میں خوف، اہم ٹیکنیکل ہتھیار کھو دیا فائل فوٹو

امریکا اور اسرائیل نے لبنان کی حکومت سے فوری مطالبہ کیا ہے کہ بیروت کے جنوبی مضافات سے ملنے والا وہ اسرائیلی بم فوراً واپس کیا جائے جو حالیہ حملے میں استعمال ہوا مگر پھٹ نہ سکا۔ دونوں ممالک کو خدشہ ہے کہ اگر جدید ٹیکنالوجی کا حامل یہ بم روس یا چین کے ہاتھ لگ گیا تو وہ اس کے فوجی راز حاصل کر سکتے ہیں۔

اسرائیلی اخبار “معاریو” کے مطابق مذکورہ بم اسمارٹ گلائیڈ گائیڈڈ میونیشن جی بی یو-39 بی ہے، جسے امریکی کمپنی بوئنگ تیار کرتی ہے۔ یہ بم اسرائیلی فضائیہ نے بیروت میں حزب اللہ کے مبینہ چیف آف اسٹاف ہشام علی طبطبائی کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق نامعلوم وجوہات کی بنا پر بم پھٹ نہ سکا اور حملے کی جگہ پر تقریباً صحیح حالت میں پڑا رہا۔

یہی بات واشنگٹن اور تل ابیب دونوں کے لیے پریشانی کا باعث بن گئی ہے، کیونکہ اس میں جدید گائیڈنس سسٹم اور انتہائی طاقتور وارہیڈ موجود ہے، جنہیں روس یا چین ابھی تک اپنے ہتھیاروں میں استعمال نہیں کرتے۔

معاریو کا کہنا ہے کہ خاص طور پر امریکا کو یہ خوف ہے کہ اگر روس یا چین اس بم کو حاصل کر لیتے ہیں تو وہ اس کی جدید ٹیکنالوجی کو نقل کرکے اپنی میزائل صلاحیت بہتر بنا سکتے ہیں۔ اسی لیے یہ بم فوری طور پر واپس لینے کے لیے سخت دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔

لبنانی حکومت پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، لیکن اس حوالے سے کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

ہلکا، تباہ کن اور بے مثال درستگی کا حامل امریکی ساختہ گلائیڈ بم کیا ہے؟

امریکی کمپنی بوئنگ کا تیار کردہ جی بی یو-39 گلائیڈ بم جدید جنگی ٹیکنالوجی کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتا ہے، جو اپنی کم قیمت، اعلیٰ درستگی اور تباہ کن صلاحیت کے باعث دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔

یہ بم انجن کے بغیر کام کرتا ہے، لیکن لانچ ہوتے ہی اس کے پروں کی تعیناتی اسے تقریباً 110 کلومیٹر تک آسانی سے ہوا میں تیرنے کی صلاحیت دیتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ حملہ کرنے والا طیارہ دشمن کے دفاعی نظام سے کافی فاصلے پر رہتے ہوئے بھی ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انجن نہ ہونے کے باعث یہ بم نسبتاً سستا ہے اور اس کی قیمت تقریباً 50 ہزار ڈالر بتائی جاتی ہے، جو جدید ترین ہتھیاروں میں اسے ایک کم خرچ مگر انتہائی مؤثر آپشن بناتی ہے۔

ماہرین کے مطابق گلائیڈ بم کوئی نئی ایجاد نہیں، مگر جی بی یو-39 کو منفرد بناتا ہے اس کا انتہائی طاقتور وار ہیڈ، جو اپنے وزن کے مقابلے میں غیر معمولی تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ بم مضبوط عمارتوں اور کنکریٹ کے ڈھانچوں کو بھی آسانی سے بھید سکتا ہے۔

اس کا وزن تقریباً 110 کلوگرام ہے اور سائز میں اتنا چھوٹا ہے کہ ایک ٹن وزنی مارک-84 بم کی جگہ ایک ہی طیارہ اس کے چار یونٹس اٹھا سکتا ہے۔

اس طرح ایک لڑاکا طیارہ ایک ہی مشن میں درجنوں ٹارگٹس کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

اس بم کی ایک اور بڑی خصوصیت اس کا ہائی پریسژن ٹارگٹنگ سسٹم ہے۔ جی پی ایس اور انرشیل گائیڈنس ٹیکنالوجی کی بدولت یہ ہدف کو صرف ایک میٹر تک کی درستگی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔

اس سے نہ صرف اضافی بم گرانے کی ضرورت کم ہوتی ہے بلکہ طیاروں اور شہری آبادی دونوں کو خطرہ بھی کم رہتا ہے۔

یہ اسمول ڈائیمیٹر بم (ایس ڈی بی) پہلی بار 2006 میں استعمال کیا گیا تھا۔ اسے خاص طور پر ایف-35 جنگی طیاروں کے اندرونی ویپن بے کے لیے ڈیزائن کیا گیا، جو بیک وقت آٹھ ایسے بم اپنے اندر چھپا کر لے جا سکتے ہیں اور پھر بھی دشمن کے ریڈار پر تقریباً اوجھل رہتے ہیں۔

امریکہ اس ٹیکنالوجی کے معاملے میں کافی محتاط ہے، اسی لیے اب تک اس کے تقریباً 20 ہزار یونٹس بنانے کے باوجود اسے چند ہی اتحادی ممالک جیسے اٹلی، نیدرلینڈز، آسٹریلیا اور سعودی عرب کو ہی فروخت کیا گیا ہے۔ اس کا ایک زمینی لانچ ورژن یوکرین کو خصوصی طور پر فراہم کیا گیا ہے۔

اسرائیلی فضائیہ اس بم کو ”شارپ ہیل“ کے نام سے استعمال کرتی ہے اور یہ اسرائیل کے تمام لڑاکا طیاروں کے ہتھیاروں میں شامل ہے۔

install suchtv android app on google app store