سائنسدانوں نے ناسا کے جیمز ویب خلائی دوربین کی مدد سے ممکنہ طور پر کائنات کے قدیم ترین ستارے دریافت کر لیے ہیں۔ تحقیق کے مطابق یہ ستارے بگ بینگ کے فوراً بعد وجود میں آئے تھے۔
یہ قدیم ترین ستارے، جنہیں پاپولیشن 3 یا پاپ تھری کہا جاتا ہے، کہکشاں ایل اے پی-1 بی میں موجود ہیں اور زمین سے تقریباً 13 ارب نوری برسوں کے فاصلے پر واقع ہیں۔
خلائی دوربین کے ذریعے ان ستاروں کی الٹرا وایلیٹ روشنی دیکھی گئی۔ سائنسدانوں کے مطابق ان ستاروں کا حجم سورج سے 100 گنا زیادہ ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ کہکشاں نظریاتی پیشگوئیوں سے میل کھاتی ہے، جس کے مطابق یہاں کائنات کے قدیم ترین ستارے موجود ہو سکتے ہیں۔
اگر یہ درست ہے تو اس کہکشاں میں موجود ستارے سائنسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد دیں گے کہ کائنات میں کہکشائیں کیسے بنی۔
سائنسدانوں کے خیال میں یہ ستارے صرف ہائیڈروجن اور ہیلیم سے بنے ہیں، جو بگ بینگ کے فوراً بعد وجود میں آئے تھے۔
تحقیقی ٹیم نے اس کہکشاں کی شناخت ثقلی عدسے کے ذریعے کی، جس نے اتنی دور کی روشنی کو زمین تک پہنچنے میں مدد دی۔
اس عمل کے دوران طاقتور ثقلی امواج روشنی کو موڑ کر خمیدہ کر دیتی ہیں۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ یہ ستارے زیادہ بڑی کہکشاؤں بننے کے عمل کی بنیاد بھی بنے اور اس سے ہمیں کائنات کے اولین سسٹمز کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
اب ماہرین کی جانب سے پوپ تھری سے پوپ ٹو اسٹارز (کائنات کے دوسری نسل کے ستارے) کی تبدیلی کے عمل کی تفصیلی ہائیڈرو ڈائنامکل سمولیشنز کی تیاری پر کام کیا جائے گا۔
محققین کے مطابق یہ دریافت تو بس آغاز ہے۔