ٹک ٹاک کے ‘فِلپ دی کیمرہ’ چیلنج سے ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہونے لگا

ماہرین اور سوشل میڈیا کریئیٹرز نے اس رجحان کی کھل کر مخالفت کی ہے اور اسے واضح طور پر ایک قسم کی آن لائن بدمعاشی قرار دیا ہے فائل فوٹو ماہرین اور سوشل میڈیا کریئیٹرز نے اس رجحان کی کھل کر مخالفت کی ہے اور اسے واضح طور پر ایک قسم کی آن لائن بدمعاشی قرار دیا ہے

سوشل میڈیا کی تیز رفتار دنیا میں ہر روز کوئی نیا رجحان سامنے آتا ہے، لیکن بعض رجحانات نوجوانوں کے لیے خاموش مگر سنگین خطرات بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ ٹک ٹاک پر مقبول ہونے والا ’’فِلپ دی کیمرا‘‘ چیلنج اسی نوعیت کا ایک ٹرینڈ ہے، جو آن لائن تفریح اور حقیقی انسانی جذبات کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو نمایاں کرتا ہے۔

رپورٹس کے مطابق یہ نیا اور تشویش ناک رجحان والدین اور ماہرین کی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ الزام یہ ہے کہ بعض نوجوان دوسروں کی شرمندگی کو تفریحی کلپس میں بدل کر سوشل میڈیا پر پیش کر رہے ہیں۔

جو چیز آن لائن دیکھنے والوں کو مزاحیہ محسوس ہوتی ہے، وہی عمل ریکارڈ ہونے والے شخص کے لیے تکلیف دہ یا متاثر کن ثابت ہو سکتا ہے۔

اس چیلنج کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ چند نوجوان خوشگوار لمحے یا کسی کھیل کے بہانے کسی فرد کو موبائل تھماتے ہیں، اور جیسے ہی وہ موبائل پکڑتا ہے، کیمرہ پلٹ کر اس کی حیرانی کو ریکارڈ کر لیتے ہیں۔

بعد ازاں یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی جاتی ہے، جہاں لائکس اور کمنٹس اسے مزید مقبول بنا دیتے ہیں—لیکن اس لمحے کی ندامت سے گزرنے والا شخص اکثر اس صورتحال کو سنبھال نہیں پاتا۔

ماہرین اور سوشل میڈیا کریئیٹرز نے اس رجحان کی شدید مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دراصل آن لائن بدمعاشی کا ایک اور روپ ہے، جس میں خاموش، حساس یا مددگار نوجوان آسان ہدف بن جاتے ہیں، اور معمولی حرکت ان کے لیے بڑی شرمندگی میں بدل جاتی ہے۔

ایک ٹک ٹاک صارف، کیتھ ٹاکس، نے اس رجحان کو ’’انتہائی ہتک آمیز‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ’’معصوم تفریح‘‘ نہیں بلکہ بدمعاشی کو ایک نئی شکل میں پیش کرنے کا ذریعہ ہے۔

کئی والدین اور ماہرین کے مطابق سوشل میڈیا صارفین فوری ردِعمل پیدا کرنے والی ویڈیوز کو ترجيح دیتے ہیں، اور اسی وجہ سے کسی شخص کی نادانستہ شرمندگی بھی ’’تفریح‘‘ بن کر سامنے آتی ہے۔

’’بلی زیرو آسٹریلیا‘‘ کی سی ای او جنت گریما اس ٹرینڈ کو خوفناک قرار دیتی ہیں۔ ان کے مطابق آن لائن بدمعاشی کا انداز بدل چکا ہے اب نقصان دہ رویّوں کو ’’چیلنج‘‘ یا ’’ٹرینڈ‘‘ کا نام دے دیا جاتا ہے، اور نوجوان اکثر نہیں سمجھ پاتے کہ ایک لمحے کی ویڈیو کسی اور کی ذہنی یا جذباتی کیفیت پر کتنا اثر ڈال سکتی ہے۔

وہ والدین کو مشورہ دیتی ہیں کہ بچوں کو جلد تربیت دیں اور انہیں یہ سمجھائیں کہ آن لائن دنیا میں بھی رضامندی کی اہمیت ویسی ہی ہے جیسی حقیقی زندگی میں۔

گریما کے مطابق سوشل میڈیا کے الگورتھم لائکس اور کمنٹس والے مواد کو تیزی سے پھیلاتے ہیں، اس لیے ایسے ویڈیوز پر ردِعمل دینا مسئلے کو مزید بڑھا دیتا ہے۔

افسوس ناک امر یہ ہے کہ اب دوسروں کی شرمندگی کو تفریح سمجھنا ایک عام رویہ بنتا جا رہا ہے۔

وہ والدین سے درخواست کرتی ہیں کہ بچوں کو ’’نہیں‘‘ کہنے کا حق دیں، ان سے ہمدردی سے گفتگو کریں، اور انہیں سکھائیں کہ وہ کسی کی اجازت کے بغیر اس کی ویڈیو نہ بنائیں اور نہ شیئر کریں۔

ساتھ ہی وہ صارفین کو بھی تنبیہ کرتی ہیں کہ ایسے مواد کو لائک، کمنٹ یا شیئر کرنے سے گریز کریں تاکہ یہ رجحان مزید مضبوط نہ ہو۔

آخر میں، اصل ضرورت ٹیکنالوجی اور انسانیت کے درمیان توازن قائم کرنے کی ہے۔ ہر ویڈیو کے پیچھے ایک انسان ہوتا ہے، جس کے حقیقی جذبات اور احساسات ہوتے ہیں۔

شاید اب وقت آ گیا ہے کہ ہم آن لائن تفریح کے معیار کو صرف ’’وائرل‘‘ ہونے کے بجائے انسانی وقار کی کسوٹی پر بھی پرکھیں۔

نوجوانوں کی رہنمائی، والدین کی توجہ اور سماجی شعور ہی ایسے نقصان دہ رجحانات کے اثرات کو کم کر سکتے ہیں اور آن لائن دنیا کو مزید محفوظ اور باہمی احترام کا مقام بنا سکتے ہیں۔

install suchtv android app on google app store