فلکیات دانوں نے ایک غیر معمولی اور تباہ کن کائناتی واقعے کا مشاہدہ کیا ہے، جس میں ایک دیوقامت ستارہ غلط سمت اختیار کرنے کے باعث اپنی موت کے منہ میں چلا گیا۔ یہ ایک بالکل نئی قسم کے سپرنووا (ستارے کے عظیم دھماکے) کی نشاندہی ہے، جو اس وقت پیش آیا جب ایک عظیم ستارہ ایک بلیک ہول کو "نگلنے" کی کوشش میں خود اس کا شکار بن گیا۔
یہ وہی بلیک ہول تھا جس کے ساتھ ستارہ طویل عرصے سے کششی رقص، یعنی "پاس ڈی ڈیو"، میں شریک تھا۔
یہ ستارہ کم از کم سورج سے دس گنا زیادہ بڑا تھا، جبکہ بلیک ہول کی کمیت بھی تقریباً اتنی ہی تھی۔ دونوں ایک دوہرے نظام میں کششِ ثقل کے ذریعے ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے تھے۔
وقت کے ساتھ ان کے درمیان فاصلہ گھٹتا گیا اور بلیک ہول کی شدید کششِ ثقل نے ستارے کی شکل بگاڑ دی، اس کا مادہ کھینچنا شروع کر دیا، اور آخرکار اسے ایک زبردست دھماکے پر مجبور کر دیا۔
امریکی نیشنل سائنس فاؤنڈیشن کے انسٹیٹیوٹ برائے بنیادی تعاملات کے ماہر فلکیات الیگزینڈر گیگلیانو کے مطابق:
"ہم نے ایک بڑے ستارے کو بلیک ہول کے جال میں قید دیکھا۔ کئی سال تک بلیک ہول کے ساتھ موت کے رقص میں شریک رہنے اور اپنا مادہ کھونے کے بعد، ستارہ ایک شاندار دھماکے سے ختم ہوا۔
جس میں ایک سیکنڈ میں سورج کی پوری عمر میں خارج ہونے والی توانائی سے بھی زیادہ توانائی خارج ہوئی۔"
یہ دھماکہ زمین سے تقریباً 70 کروڑ نوری سال کے فاصلے پر ہوا۔ (ایک نوری سال وہ فاصلہ ہے جو روشنی ایک سال میں طے کرتی ہے، یعنی تقریباً 9.5 کھرب کلومیٹر۔)
گیگلیانو نے مزید بتایا کہ دونوں اجسام کی کششی قوت تقریباً یکساں تھی کیونکہ ان کی کمیت قریب قریب برابر تھی۔
لیکن ستارہ جسامت میں بڑا اور پُھولا ہوا تھا، جبکہ بلیک ہول چھوٹا مگر انتہائی طاقتور۔ بلیک ہول نے بالآخر بازی مار لی۔"
تحقیق کار ابھی اس بات پر یقینی نہیں ہیں کہ سپرنووا کا اصل میکانزم کیا تھا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کی ماہر فلکیات اور تحقیق کی مرکزی مصنفہ ایشلے ولار کہتی ہیں: "یہ ابھی واضح نہیں کہ آیا بلیک ہول کی وجہ سے پیدا ہونے والی بگاڑ ستارے میں ایسی عدم استحکام لاتی ہے جو اس کے انہدام اور پھر بلیک ہول کے ذریعے باقی ماندہ مواد کے نگلنے کا باعث بنتی ہے۔
یا بلیک ہول پہلے ہی ستارے کو مکمل طور پر توڑ دیتا ہے اور پھر سپرنووا وقوع پذیر ہوتا ہے۔"
یہ بائنری سسٹم ابتدا میں دو بڑے ستاروں پر مشتمل تھا جو ایک دوسرے کے گرد گردش کر رہے تھے۔
ان میں سے ایک ستارہ اپنی طبعی عمر کے اختتام پر سپرنووا میں پھٹ گیا، اور اس کا کور سکڑ کر بلیک ہول بن گیا۔
ایک ایسا کثیف وجود جس کی کششِ ثقل اتنی طاقتور ہے کہ روشنی بھی اس سے بچ نہیں سکتی۔
ولار کہتی ہیں: "یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ بعض سپرنووا دراصل بلیک ہول ساتھیوں کے باعث بھی شروع ہو سکتے ہیں، جو ہمیں بڑے ستاروں کی موت کے عمل پر نئے بصیرت فراہم کرتا ہے۔"
اس واقعے کا پتہ سب سے پہلے ایک مصنوعی ذہانت والے الگورتھم نے لگایا، جو کائنات میں غیر معمولی دھماکوں کو حقیقی وقت میں شناخت کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
اس نے فوری الرٹ جاری کیا، جس سے ماہرین کو فوری مشاہداتی مہم شروع کرنے کا موقع ملا۔
زمین اور خلا میں موجود کئی دوربینوں نے اس دھماکے کو مکمل طور پر ریکارڈ کیا۔
سپرنووا سے چار سال قبل کے مشاہدات سے ظاہر ہوا کہ ستارہ پہلے ہی غیر معمولی روشنی خارج کر رہا تھا، جو غالباً بلیک ہول کی طرف سے اس کا مادہ کھینچنے کی وجہ سے تھی۔
اس عمل میں ستارے کی بیرونی ہائیڈروجن تہہ اتر گئی اور نیچے والی ہیلیم تہہ ظاہر ہو گئی۔
دھماکے کے بعد بھی روشنی کے شدید اخراج دیکھے گئے، جب بلیک ہول نے باقی ماندہ ملبہ ہڑپ کیا۔
آخرکار بلیک ہول مزید طاقتور اور کمیتی طور پر بڑا ہو گیا۔ گیگلیانو کے مطابق: "ہمارا نتیجہ یہ ہے کہ ستاروں کی قسمت ان کے ساتھیوں کی موجودگی سے گہری حد تک متاثر ہوتی ہے۔
یہ واقعہ ہمیں ایک دلچسپ جھلک دیتا ہے کہ بلیک ہول کس قدر ڈرامائی طور پر بڑے ستاروں کی موت کو بدل سکتے ہیں۔"