فیض احمد فیض: پچاس نظموں کا ترجمہ

فیض احمد فیض فیض احمد فیض

محمود جمال پیش لفظ میں کہتے ہیں کہ ترجمہ کرنے میں زیادہ مدد اس بات سے ملتی ہے کہ آپ آُس زبان کے شاعر ہوں جس میں ترجمہ کر رہے ہوں بجائے اس زبان کے جس سے ترجمہ کر رہے ہوں۔

اس بات سے کم از کم یہ علم ہو جاتا ہے کہ محمود جمال انگریزی کے شاعر ہیں اور ترجمہ کے لیے اپنے کلیّے پر پورے اترتے ہیں۔

 

انگریزی میں ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور کئی انتخابوں میں بھی ان کی نظمیں شامل ہوتی رہتی ہیں لیکن بدقسمتی سے مجھے ان کی شاعری پڑھنے کا تو اتفاق نہیں ہوا لیکن یاد پڑتا ہے کہ ان سے ایک ملاقات لندن میں ہوئی تھی۔

 

کئی سال پہلے ہونے والی یہ ملاقات سرسری تھی۔ ان سے یہ ملاقات ساقی فاووقی نے کرائی تھی اور ان کا تعارف کراتے ہوئے ان کے مترجم ہونے پر بھی خاصا زور دیا تھا۔

 

اس تعارف میں محمود جمال سے ملاقات نہیں ہو پائی ویسے بھی ساقی فاروقی صاحب کی موجودگی میں، ان کے سوا کسی سے ملنا ممکن نہیں رہتا۔

 

پھر دو ایک تقریبات میں انھیں دیکھا بھی لیکن ان سے کوئی ایسی بات چیت نہیں ہو پائی جس سے ان کی شاعری یا شعری فہم کے بارے میں کوئی شناسائی ہو پاتی۔ لیکن جتنی بھی بات ہوئی اس میں یہ نہیں لگا کہ ان کی انگریزی نے ان کی اردو کی بیخ کنی کر چکی ہے۔

 

حالانکہ تب مجھے یہ علم نہیں تھا کہ وہ لکھنو میں پیدا ہوئے جہاں سے ان کا خاندان تو 1967 میں پاکستان آگیا لیکن وہ شاید تبھی سے لندن میں رہ رہے ہیں۔

 

انھوں نے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز (سواس) سے ساؤتھ ایشین سٹڈیز کی ڈگری حاصل کی۔ لیکن اس ترجمے کے حوالے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پینگوئن نے 1986 میں جدید اردو شاعری کا جو انتخاب شائع کیا تھا اس کے ایڈیٹر اور مترجم محمود جمال تھے۔

 

اس کے علاوہ انھوں نے پینگوئن ہی کے لیے 2009 میں اسلامک مسٹک پوئٹری کی ایک کتاب مرتب کی تھی جس کے وہ مترجم بھی تھے۔

 

وہ فلمساز بھی ہیں اور دستاویزی فلمیں بناتے ہیں۔ اگر ان کی دوسری خوبیوں کو بھی کوائف میں شامل کیا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ وہ اس ترجمے کے پوری طرح اہل ہیں۔

 

انھوں اسی پیش لفظ میں یہ بھی کہا ہے کہ ترجمہ کرتے ہوئے انھوں نے دو باتوں کا خیال رکھا ہے ایک تو یہ کہ یہ نظمیں انگریزی میں بھی نظموں کے طور پر ہی پڑھی جائیں اور دوسری یہ کہ اصل کے معنی و منشا سے بہت دوری نہ ہو۔

 

کوئی بھی مترجم اس سے زیادہ احتیاط نہیں کر سکتا۔ لیکن مسئلہ محمود جمال کے ساتھ نہیں فیض صاحب کے ساتھ ہے۔ ان کی شاعری میں جو غنایت ہے اور مزاج کا دھیما پن ہے اُسے انگریزی میں منتقل نہیں کیا جا سکتا۔ پھر زبانوں کا ثقافتی مزاج کا تو فرق ہے ہی۔

 

اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصے میں تو اردو متن اور اس کے مقابل انگریزی ترجمہ ہے اور اس کے بعد دوسرے حصے میں اردو متن کو رومن میں دیا گیا ہے۔

 

یہ انداز اس اعتبار سے تو اچھا ہے کہ اس سے پڑھنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہو جائیں گے جو اردو رسم الخط نہیں پڑھ سکتے لیکن اردو پڑھنا چاہتے ہیں، پڑھتے ہیں اور بڑی حد تک سمجھتے بھی ہیں یا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

فیض صاحب کی شاعری کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ ابھی ابھی ان کی صدی کا سال منایا جا چکا اور اردو ادب پڑھنے والا ہر کوئی ان سے بڑی حد تک واقف ہو چکا ہے۔

 

یوں بھی فیض احمد فیض اردو کے ایک ایسے شاعر ہیں جن پر غالب اور اقبال کے بعد سب سے زیادہ لکھا گیا ہے۔

 

لیکن جہاں تک اس ترجمے کا تعلق ہے، میرے خیال میں اس میں محمود جمال نے پوری طرح جان نہیں ماری۔ ترجمہ کچھ بے مزا سا ہے۔ اس میں آپ کو ’بیشی‘ تو دکھائی نہیں دے گی لیکن کمی ضرور محسوس ہو گی اور کہیں کہیں خاصی۔

 

محمود جمال کہہ سکتے ہیں کہ وہ ان نظموں کو انگریزی میں لکھتے تو ایسے ہی لکھتے لیکن ضروری نہیں کہ ان کی رائے سے اتفاق کیا جائے۔

 

اس ترجمے کو پڑھنے والے اگر اسے اردو سے ملا کر پڑھیں گے تو شاید انھیں یہ ترجمہ زیادہ اچھا نہ لگے۔ اس لیے اچھا ہوتا کہ اس کے ساتھ اردو متن نہ دیا جاتا۔

 

اگر یہ ترجمہ صرف ’نان اردو‘ طالب علموں کے لیے بھی شائع کیا گیا ہے تو بھی اس پر کسی سی رائے ضرور لی جانی چاہیے تھی۔

install suchtv android app on google app store