امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےوائٹ ہاؤس کے قریب حملے میں زخمی ہونے والی نیشنل گارڈ کی اہلکار کی ہلاکت کے بعد کہا ہے کہ وہ تیسری دنیا کے ممالک سے ہونے والی ہجرت کو مستقل طور پر روک دیں گے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کا یہ بیان بدھ کو ہونے والی فائرنگ کے بعد امیگریشن اقدامات میں مزید سختی کی نشاندہی کرتا ہے، حکام کے مطابق حملہ ایک افغان شہری نے کیا تھا جو 2021 میں آبادکاری کے ایک پروگرام کے تحت امریکا آیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ کسی ملک کا نام لیا اور نہ یہ واضح کیا کہ ان کے نزدیک ’تیسری دنیا کے ممالک‘ سے کیا مراد ہے یا ’مستقل معطلی‘ کی نوعیت کیا ہوگی، انہوں نے کہا کہ یہ اقدام بائیڈن انتظامیہ کے تحت منظور ہونے والے کیسز پر بھی لاگو ہوگا۔
اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹرُتھ سوشل‘ پر ٹرمپ نے کہا کہ وہ تیسری دنیا کے تمام ممالک سے ہجرت کو روک دیں گے تاکہ امریکی نظام بحال ہو سکے، بائیڈن دور کی تمام غیر قانونی منظوریوں کا خاتمہ کیا جائے، چاہے وہ آٹو پین کے ذریعے دستخط شدہ ہی کیوں نہ ہوں، اور ایسے تمام افراد کو ملک سے نکالا جائے جو امریکا کے لیے اثاثہ نہ ہوں۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ نان امیگرنٹس کے لیے تمام وفاقی فوائد اور سبسڈیز ختم کر دیں گے، ان تارکین وطن کی شہریت منسوخ کریں گے جو داخلی امن میں خلل ڈالیں، اور ایسے غیر ملکیوں کو ملک بدر کر دیں گے جنہیں عوامی بوجھ، سیکیورٹی رسک یا مغربی تہذیب سے عدم مطابقت رکھنے والا سمجھا جائے، وائٹ ہاؤس اور امریکی امیگریشن حکام نے اس پر فوری تبصرہ نہیں کیا۔
ٹرمپ کے ان بیانات سے قبل نیشنل گارڈ کی 20 سالہ رکن سارہ بیکسٹرم جمعرات کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسی تھیں، ان کے ساتھی 24 سالہ اینڈریو وولف کی حالت نازک ہے۔
اس سے قبل ہوم لینڈ سیکیورٹی کے حکام نے بتایا کہ ٹرمپ نے بائیڈن دور میں منظور ہونے والے پناہ گزینوں کے کیسز اور 19 ممالک کے شہریوں کو جاری ہونے والی گرین کارڈز کے وسیع جائزے کا حکم دیا ہے۔
رائٹرز کو دستیاب امریکی سرکاری دستاویزات کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ مبینہ حملہ آور 29 سالہ رحمٰن اللہ لکنوال کو اس سال ٹرمپ انتظامیہ کے تحت پناہ دی گئی۔
وہ 2021 میں اگست میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد بائیڈن کی جانب سے قائم کیے گئے آبادکاری پروگرام کے تحت امریکا آیا۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ نے ایک الگ بیان میں دعویٰ کیا کہ افغانستان سے ہونے والے خوفناک فضائی انخلا کے دوران لاکھوں افراد بغیر کسی جانچ پڑتال کے امریکا میں داخل ہوئے۔
بدھ کو امریکی شہریت اور امیگریشن سروسز نے افغان شہریوں سے متعلق تمام امیگریشن درخواستوں کی کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے روک دی۔
ٹرمپ نے واضح کیا کہ ان کی انتظامیہ کا مقصد غیر قانونی اور خلل ڈالنے والی آبادیوں کو نمایاں حد تک کم کرنا ہے، اور انہوں نے اشارہ دیا کہ اس مقصد کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’صرف ریورس مائیگریشن ہی اس صورتحال کا مکمل حل ہو سکتی ہے‘۔
اگرچہ لکنوال قانونی طور پر ملک میں تھا، لیکن یہ واقعہ ٹرمپ کے امیگریشن ایجنڈے کو مضبوط کرتا ہے، قانونی اور غیر قانونی ہجرت پر کریک ڈاؤن ان کی صدارت کی اہم ترجیح رہی ہے، اور اس کیس نے انہیں قانونی دائرے سے آگے بڑھ کر امیگرینٹس کی سخت جانچ پڑتال پر بحث کو وسعت دینے کا موقع دیا۔
ٹرمپ پہلے ہی بڑے امریکی شہروں میں اضافی امیگریشن افسران تعینات کر چکے ہیں تاکہ ریکارڈ سطح پر ملک بدر کیے جانے والے افراد کی تعداد بڑھائی جا سکے، جس میں طویل عرصے سے مقیم افراد اور بغیر کسی مجرمانہ ریکارڈ والے لوگ بھی شامل ہیں۔
آئی سی ای کے اعداد و شمار کے مطابق، 15 نومبر تک امریکی امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ کے زیر حراست تقریباً 53 ہزار افراد میں سے دو تہائی سے زیادہ کے خلاف کوئی مجرمانہ سزا نہیں تھی۔