امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ریپبلکن سینیٹرز ایک سخت قانون سازی پر کام کر رہے ہیں جس کے تحت روس کے ساتھ کاروبار کرنے والے تمام ممالک پر بھاری پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ یہ تجویز انہوں نے خود پیش کی تھی، اور ممکن ہے کہ ایران کو بھی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔
اتوار کو صحافیوں سے گفتگو میں ٹرمپ نے بتایا کہ اس مجوزہ بل کا مقصد اُن ممالک پر دباؤ بڑھانا ہے جو یوکرین جنگ کے چار سال گزر جانے کے باوجود روس سے تجارتی روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں، جبکہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کسی پسپائی کے آثار نہیں دکھا رہے۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ سینیٹ میں پیش کیا جانے والا یہ بل ان کے لیے “مکمل طور پر قابلِ قبول” ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس قانون کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔
ریپبلکن سینیٹ لیڈر جان تھون پہلے ہی اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ سینیٹر لنڈسے گراہم کی جانب سے پیش کردہ روس مخالف پابندیاں سخت کرنے کے بل پر ووٹنگ کرانے کے لیے تیار ہیں، اگرچہ انہوں نے اس کے لیے کوئی حتمی تاریخ نہیں دی۔
بل کی اہم ترین شق کے مطابق امریکی صدر کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ اُن ممالک کی درآمدات پر ٹیکس میں 500 فیصد تک اضافہ کر سکتے ہیں جو روس سے توانائی—خصوصاً پیٹرولیم مصنوعات اور گیس—خریدتے ہیں، لیکن یوکرین کی حمایت میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہے۔
یہ شق زیادہ تر اُن ممالک پر اثر انداز ہوسکتی ہے جو روسی تیل اور گیس کے بڑے خریدار سمجھے جاتے ہیں، جیسے چین اور بھارت۔ البتہ بھارت کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کے بعد اس نے روس سے تیل کی خریداری روک دی ہے۔پاک افغان کشیدگی کم کرانے کیلئے روس کی ثالثی کی پیشکش
کانگریس میں ڈیموکریٹس اور کئی ریپبلکن ارکان روس پر مزید دباؤ بڑھانے کے حامی ہیں تاکہ اسے یوکرین پر جاری حملوں سے روکا جا سکے۔ تاہم ٹرمپ ماضی میں ایسے اقدامات سے ہچکچاتے رہے، کیونکہ وہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور ولادیمیر پیوٹن کے درمیان امن بات چیت کی کوششیں کر رہے تھے۔
دوسری جانب صورتِ حال یہ ہے کہ روس کی جارحیت کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی جا رہی ہے، اور روسی فوج یوکرین کے شہر پوکرووسک پر قبضے کی کوششیں تیز کر چکی ہے۔ یوکرینی افواج بھی روسی آئل تنصیبات کو نشانہ بنا رہی ہیں، جس سے جنگ میں مزید شدت آ رہی ہے۔