پیر کو نئی دہلی میں لال قلعہ میٹرو اسٹیشن کے قریب ہونے والے شدید دھماکے کے بعد چشم دید گواہ دھرمندر کا اہم بیان سامنے آیا، جس میں اس نے بھارتی حکام کے سرکاری موقف پر کئی سوالات اٹھائے۔ دھرمندر کے مطابق دھماکہ اس وقت ہوا جب وہ مخالف سمت سے گزر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ دھماکے کے بعد سفید رنگ کی سوزوکی ماروتی میں چار جلی ہوئی لاشیں دیکھی گئیں، جبکہ گاڑی کے باہر دو افراد ہلاک اور ایک شدید زخمی حالت میں پڑا تھا۔
دھرمندر نے مزید بتایا کہ گاڑی کی نمبر پلیٹ پر محمد ندیم، ہریانہ درج تھا اور گاڑی سوزوکی ماروتی تھی، تاہم بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ اور بھارتی میڈیا اسے ہنڈائی گاڑی قرار دے رہے ہیں، جس سے واقعے کی شفافیت پر شکوک پیدا ہو گئے ہیں۔
عینی شاہد نے کہا کہ گاڑی کے مالک کا نام ندیم تھا، لیکن "را" سے منسلک سوشل میڈیا ٹرولز اسے سلمان کہہ رہے ہیں، جبکہ بعض میڈیا رپورٹس میں طارق بتایا جا رہا ہے۔
دھرمندر نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "یہ کیسا دہشت گرد حملہ ہے جہاں آدھی ہلاکتیں خود دہشت گردوں کی ہوں؟"
اس نے مزید کہا کہ مودی سرکار اپنی روایت کے مطابق ایک گھڑی ہوئی کہانی پیش کر رہی ہے تاکہ اصل حقائق چھپائے جا سکیں۔
دوسری جانب، دہلی فائر سروس اور ایل این جے پی اسپتال کے مطابق دھماکے میں اب تک 10 افراد ہلاک اور 12 زخمی ہوئے ہیں، جبکہ دھماکے کے باعث کئی گاڑیاں جل گئیں اور اردگرد کھڑی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچا۔
علاقے کے ایک دکاندار نے بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی کو بتایا کہ دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی کہ وہ زمین پر گر پڑا، اور کہا، "میں نے اپنی زندگی میں اتنا زور دار دھماکہ کبھی نہیں سنا، ایسا لگا جیسے سب مرنے والے ہیں۔"
ایک اور مقامی شخص نے بتایا کہ اس نے سڑک پر انسانی اعضا بکھرے ہوئے دیکھے اور کسی کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ حقیقت میں کیا ہوا ہے۔
دھماکے میں زخمی ہونے والے ایک آٹو رکشہ ڈرائیور نے کہا کہ اس کی گاڑی دھماکے والی گاڑی کے بالکل سامنے کھڑی تھی۔
ڈرائیور نے واضح کیا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ گاڑی میں بم تھا یا کوئی اور چیز پھٹی، جبکہ کے مطابق گاڑی کا ماڈل سوزوکی ڈیزائر تھا، نہ کہ ہنڈائی جیسا کہ بعض میڈیا رپورٹ کر رہا ہے۔
یہ واقعہ چاندنی چوک کے مصروف ترین علاقے میں، لال قلعہ اور گوری شنکر مندر کے قریب پیش آیا۔ دھماکے کے بعد علاقے میں خوف و ہراس پھیل گیا اور شہریوں نے اپنی دکانیں بند کر دیں۔
عینی شاہدین کے بیانات، میڈیا کی متضاد رپورٹنگ اور مودی سرکار کی روایتی جلد بازی نے ایک بار پھر بھارت کے مبینہ ”فالس فلیگ آپریشنز“ پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔
عوامی حلقوں میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ آخر یہ کیسا دہشت گرد حملہ ہے جس میں زیادہ تر ہلاکتیں انہی کی اپنی گاڑی میں ہوئیں؟