افغان مہاجرین کا احتجاج، حکومت پاکستان سے مدد کی اپیل

  • اپ ڈیٹ:
اسلام آباد افغان مہاجرین فاہل فوٹو اسلام آباد افغان مہاجرین

کھلے آسمان تلے بیٹھے بے آسرا افغان مہاجرین کا احتجاج چھٹے روز بھی جاری، اقوام متحدہ کمیشن برائے مہاجرین کی بے رخی کے بعد حکومت پاکستان سے مدد کی اپیل کردی۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے کسی مظلوم کا احتجاج کوئی نئی بات نہیں تاہم اس دفعہ یہ دو فرق ضرور ہیں کہ احتجاج مقامی اداروں یا افراد کی زیادتی کے خلاف نہیں اور احتجاج کرنے والے بھی مقامی نہیں۔ سو کے قریب یہ افراد افغان پناہ گزین ہیں جو کہ اپنے ملک سے بے سروسامانی کی حالت میں اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچا کر بھاگے، دیگر لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی طرح ان کے لئے بھی پاکستان ہی بہترین اور واحد آسرا تھا سو گزشتہ کئی ماہ سے یہ افراد پاکستان میں ہیں۔ ہمارے مشاہدے میں جو بات آئی کہ یہ تمام لوگ مزدور پیشہ افراد نہیں ہیں بلکہ تعلیم یافتہ اور کوالیفائیڈ ہنرمند ہیں، دوسرا یہ کہ ان میں ایک سال کے بچے سے لیکر ستر سالہ بزرگ بھی شامل ہیں، یونیورسٹی کی طالبات بھی ہیں اور امورخانہ داری چلانے والی مائیں بھی، تو مسلئہ کہاں ہے یہ لوگ چھ دن رات سے ایک کھلے آسمان کے نیچے کبھی سخت دھوپ برداشت کرتے ہیں، کبھی بارش اور کبھی آندھی۔

پاکستان کے مختلف شہر اور اسلام آباد بالخصوص اس وقت افغان مہمانوں کے لئے انتہائی پرکشش شہر ہے، کیوں؟ پہلی وجہ تو یہ کہ یہاں پہلے سے ہی افغان مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد مستقل بنیادوں پر آباد ہے جو کہ نئے آنے والے مہاجرین کے لئے رہائیش کے حصول میں مددگار ثابت ہوتے ہیں، دوسری وجہ یہ کہ افغان مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد یورپ اور دیگر ممالک میں سیاسی پناہ کے متلاشی ہوتے ہیں، اس حساب سے اسلام آباد ہی وہ شہر ہے جہاں تمام سفارت خانوں تک ان کی پہنچ آسان ہے اور وہ امیگریشن کے لئے آسانی سے درخواست دے سکتے ہیں۔

واپس بات کرتے ہیں ان خاندانوں کی جو نا کسی ہوٹل میں رہائیش پذیر ہیں اور نا ہی کسی عزیز کے گھر مہمان ہیں بلکہ یہ مہاجرت کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہیں، رمضان المبارک کا مقدس ماہ جو درس ایثار کا مظہر ہے ان خاندانوں کے لئے فقط صبر ہی صبر ہے کیونکہ نا تو ان کے پاس کچھ سحری میں کھانے کو ہے نا ہی افطاری کا دسترخوان ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ ایسی صورتحال بھی پیش آئی جب کسی مریض کو ایمرجنسی میں ہسپتال لیجایا گیا تو ضروری ڈاکومنٹس کی عدم موجودگی پر مریض کو ہسپتال میں داخلے سے انکار کردیا گیا۔

ان پناہ گزینوں کا مطالبہ کیا ہے؟ کیوں یہ کفن پہنے ؔ ہمیں مار دو ؔ کے نعرے لگاتے ہیں، سیدھی سی بات ہے کہ اگر یہ یہاں تک آگئے ہیں تو سب سے پہلا فرض تو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا ہے کہ ضابطہ کی کاروائی کرے اور ان افراد کی دستاویزات مکمل کی جائیں تاکہ ان کو باقاعدہ مہاجرین کی حثیت مل سکے، حصول رہائیش، ملازمت اور کاروبار محض اسی صورت میں ممکن ہے جب انھیں مہاجر کارڈ ملے جس میں حکومت پاکستان کا تعاون درکار ہوگا، یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ پاکستان نے کبھی اپنے افغان بھائیوں کو پناہ دینے سے انکار نہیں کیا لیکن سب سے پہلی زمہ داری اقوام متحدہ کی ہے کہ انھیں مہاجرین کی حثیت دے۔ دوسری جانب ان پناہ گزینوں میں سے بہت نے دیگر ممالک کی امیگریشن کے لئے بھی درخواستیں دے رکھی ہوتی ہیں سو ان سفارت خانوں کی بھی زمہ داری بنتی ہے کہ جلد ایسے کیسز کو نپٹایا جائے۔ یہاں ایک سوال اور بھی اٹھتا ہے کہ اگر کسی کا امیگریشن کیس کامیاب نہیں ہوتا تو اس صورتحال میں اس کے پاس واپس جانے کا کوئی آپشن نہیں بلکہ اسے یہاں ہی رہ کر اپنے خاندان کی پرورش کرنا ہے تو پھر کیا راستہ اختیار کیا جائے گا اس لئے اقوام متحدہ کو چاہئیے کہ اس پر متعلقہ پاکستانی حکام کے ساتھ مل کر جلد کوئی پالیسی ترتیب دی جائے تاکہ اس مسئلہ کو احسن طریقہ سے حل کیا جائے۔

اسلام آباد میں کھلے آسمان تلے گھاس اور مٹی پربیٹھے ان افغان پناہ گزینوں نے حکومت پاکستان سے بھرپور اپیل کی ہے کہ انسانی ہمدردی کے تحت ان کی مدد کی جائے، انھیں بچوں کے لیے بالخصوص غذاء کی کمی کا سامنا ہے، بیماروں کے لئے ادویات کی بھی ضرورت ہے۔ دوسری جانب رمضان المبارک کے دوران ہی افغانستان میں بڑھتے ہوئے دہشتگردی کے حالیہ واقعات نے نا صرف افغان شہریوں بلکہ پوری دنیا کو غمناک کردیا ہے، ایسی صورتحال میں ممکنہ طور پر افغان شہریوں کی مزید بڑی تعداد پاکستان کا رخ کریگی جس کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے اقوام متحدہ کا اپنی زمہ داریوں کا تسلیم کرنا بہت ضروری ہے۔ 

install suchtv android app on google app store