معروف ٹیکنالوجی کمپنی اوپن اے آئی کے سی ای او سام آلٹمین نے ایک غیر معمولی اور نہایت حساس منصب کیلئے بھاری بھرکم تنخواہ کی پیشکش کی ہے۔
کمپنی نے ’’ہیڈ آف پریپیئرڈنیس‘‘ کے نام سے ایک نئی اسامی کا اعلان کیا ہے، جس کیلئے سالانہ 5 لاکھ 55 ہزار ڈالر (جو پاکستانی روپوں میں تقریباً 15 کروڑ 55 لاکھ بنتے ہیں) تنخواہ رکھی گئی ہے۔
دی گارجین کے مطابق یہ عہدہ بظاہر ایک باوقار موقع دکھائی دیتا ہے، مگر خود سام آلٹمین کے بقول یہ کام دباؤ والا ہوگا اور آپ کو فوراً ہی انتہائی پیچیدہ مسائل میں کودنا پڑے گا۔ ہم اس دنیا میں داخل ہو رہے ہیں جہاں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اے آئی کی صلاحیتیں کس طرح غلط استعمال ہوسکتی ہیں جو اگر قابو سے باہر ہوئیں تو عالمی سطح پر شدید اثرات مرتب کرسکتی ہیں۔
یہ اعلان اے آئی کی تیز رفتار ترقی اور اس کے ممکنہ خطرات کے درمیان وقت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ ہیڈ آف پریپیئرڈنیس کی ذمہ داریاں نہ صرف اے آئی کے تکنیکی پہلوؤں سے منسلک ہوں گی بلکہ سماجی اور نفسیاتی اثرات کو بھی مدنظر رکھیں گی۔
اس کے ساتھ ہی ہیڈ آف پریپیئرڈنیس کے اہم فرائض میں اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے اے آئی ماڈلز کے ممکنہ نقصان دہ استعمال کی نگرانی اور اس کی تیاری شامل ہوگی۔ اس کے علاوہ، اس عہدے پر اے آئی سے پیدا ہونے والے سائبر حملے، حیاتیاتی ماڈلنگ، اور خودمختار فیصلہ سازی کے ممکنہ خطرات کا انتظام کرنا بھی شامل ہے۔
امیدوار کو مضبوط اور قابل پیمائش حفاظتی نظام بنانے کے لیے صلاحیتوں، خطرات اور تدارکات کی جامع منصوبہ بندی کرنی ہوگی، تاکہ ایک وسیع اور قابل عمل فریم ورک تیار کیا جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اے آئی کے انسانی اور سماجی اثرات، بشمول نفسیاتی چیلنجز، کا جائزہ لینا اور ان کا مؤثر سدباب کرنا بھی اس عہدے کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہوگا۔سس
یہ اقدام اس تناظر میں سامنے آیا ہے کہ دنیا کے بڑے اے آئی ماہرین اور صنعت کے رہنما اس ٹیکنالوجی کے ممکنہ خطرات پر زور دے رہے ہیں۔ مائیکروسافٹ اے آئی کے سی ای او مصطفیٰ سلیمان نے کہا ہے کہ ’’اگر آپ اس وقت کچھ خوف محسوس نہیں کر رہے، تو شاید آپ پوری تصویر نہیں دیکھ رہے۔‘‘
گوگل ڈیپ مائنڈ کے سی ای او ڈیمس ہسبیس نے بھی اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ ”اگر اے آئی کا رخ بگڑ گیا تو یہ ممکن ہے کسی ایسے مرحلے پر جا سکتی ہے جو انسانیت کے لیے نقصان دہ ہو۔“
دوسری جانب، اے آئی پر قومی اور عالمی سطح پر ضابطہ سازی ابھی محدود ہے۔ اس کی ایک وجہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی مزاحمت بھی رہی ہے۔
مشہور کمپیوٹرسائنسدان یوشوا بنجیو جنہیں ’گاڈ فادر آف اے آئی‘ بھی کہا جاتا ہے نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ ”ایک عام سینڈوچ پر بھی اے آئی کی طرح کے قوانین نہیں ہیں“۔ یعنی مصنوعی ذہانت پر قابو پانے کے لیے قوانین اور ضابطے بہت کم ہیں، حالانکہ یہ ٹیکنالوجی ہماری زندگیوں پر بہت بڑا اثر ڈال سکتی ہے۔
اوپن اے آئی کا یہ قدم اس بات کی علامت ہے کہ بڑے اے آئی ادارے اب نہ صرف ٹیکنالوجی کی ترقی بلکہ اس کے ممکنہ منفی اثرات پر بھی متحرک انداز میں قابو پانے کے لیے اپنی تیاری کو اہمیت دے رہے ہیں۔ آلٹ مین کے مطابق، یہ عہدہ مستقبل کے اے آئی خطرات سے نمٹنے کی راہ میں سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔