کچھ عرصے پہلے سائنسدانوں نے تصدیق کی تھی کہ زمین کی اندرونی تہہ ہماری سیارے کی سطح کے مقابلے میں آہستہ گردش کر رہی ہے۔ اب سائنسدانوں نے زمین کے اندر بہت گہرائی میں چھپے ایک اور حیرت انگیز راز کا انکشاف کیا ہے۔
زمین کا اندرونی وسط ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے، اور سائنسدانوں کا تجسس یہ جاننے میں لگا رہا کہ وہاں کیا موجود ہے اور زمین کی اندرونی تہہ لوہے کے سخت گولے جیسی کیسے بنی۔
سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ انہوں نے اب اس راز کو حل کر لیا ہے اور معلوم کر لیا ہے کہ یہ تہہ کیسے ٹھوس ہوئی اور جمنے میں کامیاب ہوئی۔
یہ پہلے سے معلوم تھا کہ زمین کی اندرونی تہہ آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو رہی ہے اور اس کے ارد گرد موجود بیرونی تہہ کا پگھلا ہوا مادہ بھی سخت ہو رہا ہے۔
تاہم یہ اب تک ایک معمہ تھا کہ یہ عمل سب سے پہلے کیسے شروع ہوا اور کون سے کیمیائی اجزاء ایسے کرسٹل بنانے میں مددگار ثابت ہوئے۔
سائنسدانوں کے مطابق اگر زمین کی اندرونی تہہ تیز رفتار سے ٹھنڈی ہوتی یا کسی اور طریقے سے بنتی تو آج یہ بہت بڑی ہوتی یا زمین کا مقناطیسی میدان موجود نہ ہوتا۔
برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی، لیڈز یونیورسٹی اور لندن کالج یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق میں بتایا گیا کہ زمین کی اندرونی تہہ کاربن کی موجودگی کی بدولت جم کر ٹھوس ہونے میں کامیاب ہوئی۔
جس سے زمین کا مقناطیسی میدان مستحکم ہوا۔
کاربن کے بغیر زمین کی اندرونی تہہ اور سطح پر موجود زندگی بالکل مختلف ہوتی۔
کمپیوٹر ماڈلز کی مدد سے محققین نے دریافت کیا کہ اس اندرونی تہہ کو بننے کے لیے تقریباً 3.8 فیصد کاربن درکار تھا تاکہ کرسٹل بننے کا عمل مکمل ہو سکے۔
نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ کاربن زمین کی اندرونی تہہ کے لیے سابقہ اندازوں سے زیادہ اہم ہے اور اسی نے اندرونی تہہ کے جمنے کے عمل میں اہم کردار ادا کیا۔
جیسے بادلوں میں پانی کی بوندیں منفی 30 ڈگری سینٹی گریڈ تک ٹھنڈی ہوکر اولے یا برف بناتی ہیں، پگھلے ہوئے لوہے کو جمنے کے لیے بہت زیادہ ٹھنڈا ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔
پہلے ماہرین کا خیال تھا کہ زمین کی اندرونی تہہ کے خالص لوہے کو جمانے کے لیے منفی 800 سے ایک ہزار سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہوگی۔
مگر نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ اتنے کم درجہ حرارت پر اندرونی تہہ بہت تیزی سے بڑھتی اور زمین کا مقناطیسی نظام کام کرنا چھوڑ دیتا، مگر ہمارے سیارے کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔
محققین کا ماننا ہے کہ زمین کی اندرونی تہہ کے ٹھنڈے ہونے کا عمل منفی 250 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت سے ہوا۔
تحقیق کے دوران اس عمل کو سمجھنے کے لیے سیلیکون، سلفر، آکسیجن اور کاربن جیسے عناصر کا جائزہ لیا گیا اور دیکھا گیا کہ کس طرح وہ جمنے کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
محققین نے بتایا کہ یہ تمام عناصر اندرونی تہہ میں موجود ہیں اور ان کے کیمیائی امتزاج کی بدولت ہی اندرونی تہہ کم کولنگ میں بھی سخت ہوئی۔
وہ یہ دریافت کرکے حیران رہ گئے کہ سلفر اور سلیکون جمنے کے عمل کو سست کرنے والے عناصر ہیں جکہ کاربن جمنے کے عمل کی رفتار کو بڑھانے میں کردار ادا کرتا ہے۔
اس سے عندیہ ملتا ہے کہ کاربن زمین کی اندرونی تہہ کے لیے توقعات سے زیادہ اہم عنصر ہے اور اس کے بغیر اس کے بننے کا عمل کبھی بھی مکمل نہ ہو پاتا۔
مگر تجربات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اندرونی تہہ کے جمنے کا عمل درست کیمیائی توازن کے بغیر کبھی ممکن نہیں ہو پاتا۔
اس تحقیق کے نتائج جرنل نیچر کمیونیکیشنز میں شائع ہوئے۔
واضح رہے کہ زمین کی اوپری تہہ سیال دھات پر مبنی ہے جبکہ اندرونی تہہ ٹھوس دھاتوں پر مشتمل ہے اور اس کا حجم چاند کے 70 فیصد رقبے کے برابر ہے۔
یہ تہہ ہمارے پیروں سے 4800 کلومیٹر گہرائی میں واقع ہے۔