سال دوہزار پچیس دنیا کی تاریخ میں ایک ایسے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس نے انسانیت کو بیک وقت امید، خوف، ترقی اور بے یقینی کے مختلف رنگ دکھائے۔ یہ سال عالمی سیاست، معیشت، جنگ و امن، ٹیکنالوجی، موسمیاتی تبدیلی اور سماجی رویّوں کے اعتبار سے غیر معمولی طور پر متحرک رہا۔
دنیا کے مختلف خطوں میں رونما ہونے والے واقعات نے واضح کر دیا کہ اکیسویں صدی میں دنیا باہم جڑی ہوئی ضرور ہے، مگر مسائل اور مفادات کی کشمکش نے اس ربط کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
سیاسی سطح پر دوہزار پچیس میں عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ مشرقِ وسطیٰ بدستور عالمی سیاست کا مرکز رہا جہاں ایران، اسرائیل اور امریکہ کے مابین بیانات، دباؤ اور بالواسطہ تصادم نے خطے کو مسلسل عدم استحکام میں رکھا۔
غزہ کی صورتِ حال نے عالمی ضمیر کو ایک بار پھر جھنجھوڑا، جہاں انسانی بحران مزید گہرا ہوا اور اقوامِ متحدہ سمیت عالمی ادارے مؤثر کردار ادا کرنے میں ناکام نظر آئے۔
اسی دوران ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی بحث ایک نئے مرحلے میں داخل ہوئی، جہاں ایران نے پُرامن مقاصد پر زور دیتے ہوئے اپنی سائنسی ترقی جاری رکھی، جبکہ مغربی دنیا کی تشویش اور پابندیوں کا سلسلہ بھی برقرار رہا۔
یورپ میں یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ نے دوہزار پچیس میں بھی دنیا کو اپنی گرفت میں رکھا۔ اگرچہ بعض اوقات جنگ بندی کی باتیں ہوئیں، مگر عملی سطح پر محاذ آرائی جاری رہی۔
اس جنگ نے یورپی معیشت، توانائی کی قیمتوں اور عالمی سپلائی چین کو شدید متاثر کیا۔ یورپی ممالک نے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا اور نیٹو کے کردار پر نئی بحث نے جنم لیا۔
روس پر عائد پابندیاں عالمی معیشت میں عدم توازن کا باعث بنیں، جبکہ ترقی پذیر ممالک مہنگائی اور خوراک کی قلت سے مزید متاثر ہوئے۔
ایشیا میں چین اور امریکہ کے تعلقات دوہزار پچیس میں بھی عالمی توجہ کا مرکز رہے۔ تائیوان کے مسئلے پر بیانات اور فوجی مشقوں نے خطے میں کشیدگی کو بڑھایا، اگرچہ کھلی جنگ سے گریز کیا گیا۔
چین نے ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت اور خلائی تحقیق میں نمایاں پیش رفت کی، جس نے عالمی طاقت کے توازن پر گہرے اثرات ڈالے۔
اسی دوران جنوبی ایشیا میں بھارت اور پاکستان کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے۔ کشمیر کا مسئلہ ایک بار پھر عالمی فورمز پر زیرِ بحث آیا، جبکہ داخلی سیاست اور انتخابی ماحول نے خطے کی فضا کو مزید حساس بنا دیا۔
سال دوہزار پچیس میں ہی پاکستان اور افغانستانکے مابین بھی تعلقات انتہائی کشیدہ رہے اور پاکستان کی مدد سے برسراقتدار آنے والے افغان طالبان نے پاکستان کے خلاف ہی محاظ گرم رکھا سرحد پار دہشت
گرد عناصر کی مسلسل برآمد کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات ہوئے نتیجے کے طورپر پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندار فضائی حملے کئے گئے دونوں ممالک کے تعلقات تاحال کشیدگی کا شکار ہیں۔
دوہزار پچیس کا ایک نمایاں پہلو عالمی معیشت کی غیر یقینی صورتِ حال تھی۔ مہنگائی، کرنسی کی قدر میں اتار چڑھاؤ اور قرضوں کے بڑھتے بوجھ نے کئی ممالک کو شدید دباؤ میں رکھا۔
ترقی پذیر ممالک، خصوصاً افریقہ اور جنوبی ایشیا کے کئی حصے، عالمی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط اور محدود وسائل کے باعث سماجی بحران کا شکار رہے۔
اس کے برعکس بعض بڑی معیشتوں نے ڈیجیٹل معیشت، گرین انرجی اور ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے لیے نئے راستے تلاش کیے۔
سال دوہزار پچیس ایک ایسے دور کی عکاسی کرتا ہے جہاں دنیا ایک نازک موڑ پر کھڑی ہوگئی ہے۔ایک طرف ٹیکنالوجی اور علم کی بے مثال ترقی سامنے دیکھنے کو ملی وہیں دوسری طرف جنگ، غربت اور ماحولیاتی خطرات کا سایہ مزید گہرا ہو چکا ہے۔
دوہزار پچیس میں عالمی سطح پر عوامی احتجاج اور سماجی تحریکیں بھی نمایاں رہیں۔ کہیں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف مظاہرے ہوئے، تو کہیں نسلی امتیاز، خواتین کے حقوق اور آزادیٔ اظہار کے لیے آوازیں بلند کی گئیں۔
کئی ممالک میں حکومتوں کو عوامی دباؤ کے تحت اصلاحات کا اعلان کرنا پڑا، جبکہ بعض جگہوں پر ریاستی جبر اور سنسرشپ نے حالات کو مزید بگاڑ دیا۔
ثقافتی اور سماجی سطح پر بھی یہ سال تبدیلیوں کا حامل رہا۔ وبا کے بعد کی دنیا میں انسان نے ایک بار پھر سماجی روابط کی اہمیت کو محسوس کیا، مگر ڈیجیٹل زندگی نے روایتی تعلقات کو نئی شکل دے دی۔
فن، ادب اور میڈیا میں عالمی مسائل کی عکاسی زیادہ گہری اور حقیقت پسندانہ نظر آئی، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ انسان اپنے عہد کے سوالات سے فرار نہیں چاہتا بلکہ ان کا سامنا کرنا چاہتا ہے۔
ٹیکنالوجی کے میدان میں دوہزار پچیس کو مصنوعی ذہانت کے سال کے طور پر بھی یاد کیا جائے گا۔ دنیا بھر میں اے آئی کا استعمال تعلیم، صحت، دفاع اور میڈیا تک پھیل گیا۔
اگرچہ اس نے انسانی زندگی کو سہل بنانے میں کردار ادا کیا، مگر اس کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع، پرائیویسی اور اخلاقی سوالات بھی شدت سے سامنے آئے۔
سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر معلومات کی جنگ نے رائے عامہ کو متاثر کیا، جس سے یہ سوال مزید اہم ہو گیا کہ سچ اور پروپیگنڈے کے درمیان فرق کیسے کیا جائے۔
موسمیاتی تبدیلی دوہزار پچیس میں بھی انسانیت کے لیے سب سے بڑا مشترکہ چیلنج بنی رہی۔ شدید گرمی کی لہریں، غیر معمولی بارشیں، سیلاب، جنگلاتی آگ اور سمندری طوفانوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں تباہی مچائی۔
پاکستان، بنگلہ دیش، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی علاقوں میں قدرتی آفات نے لاکھوں افراد کو بے گھر کیا۔ عالمی کانفرنسوں میں ماحولیاتی وعدے دہرائے گئے، مگر عملی اقدامات کی رفتار بدستور سست رہی، جس پر نوجوان نسل نے شدید مایوسی کا اظہار کیا۔
دوہزار پچیس نے دنیا کو یہ یاد دہانی کرائی کہ مستقبل کا دار و مدار صرف طاقت پر نہیں بلکہ اجتماعی شعور، مکالمے اور مشترکہ اقدار پر ہے۔مجموعی طور پر یہ سال انسانیت کے لیے ایک پیغام بھی لے کر آیا کہ اگر عالمی تعاون، انصاف اور ذمہ داری کو سنجیدگی سے نہ اپنایا گیا تو آنے والے برس مزید مشکل ثابت ہو سکتے ہیں۔