وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ احکامات کے خلاف دائر اپیل واپس لے لی۔ سپریم کورٹ میں توشہ خانہ تحائف کی نیلامی سے متعلق کیس کی سماعت پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ توشہ خانہ نئے رولز کی روشنی میں اپیل واپس لینا چاہتے ہیں، توشہ خانہ تحائف پر نیا قانون توثیق کے لیے صدرِ پاکستان کے پاس ہے۔
عدالت میں جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ رولز پر نہ جائیں، توشہ خانہ پر پہلے ہی بہت شرمندگی ہو چکی ہے۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ رولز کی بات کریں گے تو سوال اٹھائیں گے کس قانون کے تحت قواعد بنائے ہیں، قواعد کی بات رہنے دیں اپیل واپس لے رہے ہیں تو ایسے ہی لیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق درست ہے، سب سے زیادہ بولی دینے والا ہی تحفہ خریدنے کا حقدار ہوسکتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون بیشک نیا بن جائے لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رہے گا، ہائیکورٹ نے قرار دیا کہ توشہ خانہ تحائف عوامی ملکیت ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عوامی ملکیت والے تحائف کی نیلامی میں ہر شخص حصہ لے سکتا ہے، تحائف عوامی ملکیت ہیں تو ممکن نہیں صرف مخصوص افراد ہی خرید سکیں۔
وفاقی حکومت نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی پیروی کرنے یا نہ کرنے پر وقت مانگ لیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل ملک جاوید نے حکومت سے ہدایات لینے کی استدعا بھی کی۔
توشہ خانہ کیس میں لاہور ہائیکورٹ کا حکم
لاہور ہائیکورٹ نے 22 مارچ 2023 کو 1990 سے 2001 تک کا توشہ خانہ ریکارڈ پبلک کرنےکا حکم دیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے شہری منیر احمد کی درخواست نمٹا دی، درخواست گزار نے قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔
عدالت نے 1990سے 2001 تک کا توشہ خانہ ریکارڈ پبلک کرنےکا حکم دیتے ہوئےکہا ہےکہ جس دوست ملک نے تحائف دیے وہ بھی بتایا جائے، کوئی چیز چھپائی نہیں جاسکتی، سارا ریکارڈ پبلک کیا جائے۔