ذیا بیطس کے مریضوں میں منفی رویہ زیادہ پایا جاتا ہے، تحقیق

پاکستان میں ذیابیطس کے شکار پچاس فیصد سے زائد ملازمین نے منفی سلوک کے باعث ملازمت چھوڑنے پر غور کیا ہے فائل فوٹو پاکستان میں ذیابیطس کے شکار پچاس فیصد سے زائد ملازمین نے منفی سلوک کے باعث ملازمت چھوڑنے پر غور کیا ہے

پاکستان میں ذیابیطس کے شکار پچاس فیصد سے زائد ملازمین نے منفی سلوک کے باعث ملازمت چھوڑنے پر غور کیا ہے۔ 14 نومبر، عالمی دنِ ذیابیطس کے موقع پر جاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ذیابیطس کے مریض ملازمین کو کام کی جگہ امتیازی سلوک اور ادارہ جاتی تعاون کی کمی کا سامنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ذیابیطس کے دو تہائی ملازمین کو کام کی جگہ منفی رویہ یا امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ 58 فیصد ملازمین نے کہا کہ منفی رویے کے خوف کی وجہ سے وہ ملازمت چھوڑنے پر غور کر چکے ہیں۔

نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈائبٹیز ایجوکیٹرز آف پاکستان کی صدر ارم غفور نے ان نتائج کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے کہ ذیابیطس کے مریض کام کی جگہ تنہائی اور منفی رویے کا سامنا کریں اور یہ تمام اداروں کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹائپ ایک ذیابیطس کے 72 فیصد ملازمین کو منفی رویے کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ ٹائپ دو کے مریضوں میں یہ شرح 41 فیصد رہی۔ مزید برآں، 52 فیصد ملازمین نے بتایا کہ انہیں ذیابیطس کے لیے وقفہ یا چھٹی کی اجازت نہیں دی گئی۔

منفی رویہ نہ صرف جذباتی دباؤ پیدا کرتا ہے بلکہ کیریئر کے مواقع بھی محدود کر دیتا ہے، 37 فیصد ملازمین نے کہا کہ ذیابیطس کی وجہ سے وہ ترقی یا تربیتی مواقع سے محروم رہے۔

اکثر ملازمین اپنی بیماری کو صرف قابل اعتماد ساتھی کے ساتھ شیئر کرتے ہیں، تقریباً 46 فیصد نے یہ کام کیا جبکہ 26 فیصد نے چند منتخب ساتھیوں کے ساتھ معلومات شیئر کیں۔

روزمرہ ذیابیطس کا انتظام بھی ملازمین کے لیے مشکل بن چکا ہے، 22 فیصد نے انسولین لگانے میں ہچکچاہٹ ظاہر کی اور 16 فیصد خون میں شوگر چیک کرنے میں غیر آرام دہ محسوس کرتے ہیں۔

ایجوکیٹر انعم انور کے مطابق ملازمت اور ذیابیطس کو ساتھ لے کر چلنا آسان نہیں، ملازمین کو کام کے دوران وقفے، کھانے کے اوقات اور ذیابیطس کی دیکھ بھال کے لیے ضروری سامان ساتھ رکھنا پڑتا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان میں ملازمت کی جگہ ذیابیطس کے مریضوں کے ساتھ منفی رویے کی شرح سب سے زیادہ ہے، جبکہ بھارت میں یہ 55 فیصد اور امریکہ میں 42 فیصد ہے۔

آئی ڈی ایف کی نائب صدر ارم غفورنے مزید کہاکہ کسی بھی مختلف سلوک یا ترقی سے محروم ہونے کے خوف سے اپنی حالت چھپانے کی ضرورت نہیں ہے، ذیابیطس کے مریضوں کیلئے فلیکسیبل اوقات، نجی جگہ پر انسولین یا شوگر چیک کرنے کی سہولت جیسی تبدیلیاں ان کی زندگی میں بڑ فرق لاسکتی ہیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہرجگہ آجر اس بات کو یقینی بنائیں کہ ذیابیطس کے مریضوں کوکس طرح سپورٹ کیا جائے، ذیابیطس کا شکار ملازمین عزت، سمجھ بوجھ اور مساوی مواقعوں کے مستحق ہیں۔

ذیابیطس کے عالمی دن کی مہم کے ایک حصے کے طورپر کام کی جگہ پر فلاح و بہبودکی اہمیت پر انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن آجروں پر زور دیا ہے کہ ایسے مدد گار اور معاون ماحول کو فروغ دیا جائے جہاں صحت سے متعلق گفتگوکی حوصلہ افزائی کی جائے، تمام اسٹاف میں ذیابیطس کے بارے میں آگاہی کو فروغ دینے اور ذیابیطس کے انتظام میں سہولت فراہم کرنے والے فلیکسیبل انتظامات اس بات کو یقینی بنانے میں مدد فراہم کریں گے ذیا بیطس کے مریض خود کو تنہا محسوس نہ کریں۔

install suchtv android app on google app store