موسمیاتی تبدیلیوں سے دنیا میں کافی کچھ تبدیل ہو رہا ہے اور اب انکشاف ہوا ہے کہ اس کے نتیجے میں دنیا کی مقبول ترین غذاؤں میں سے ایک چاول کینسر کا شکار بنانے والی غذا میں تبدیل ہو رہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث 2050 تک چاولوں میں آرسینک یا سنکھیا کی سطح میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بڑھنے سے سطح زمین کا کیمیائی نظام تبدیل ہوسکتا ہے۔
یہ تبدیلیاں کاشت کے دوران چاول کے پودوں میں سنکھیا کی مقدار بڑھانے کا باعث بن رہی ہیں۔
چاول کھانا ذیابیطس کے مریضوں کے لیے نقصان دہ تو نہیں؟
چاول اگانے والے بیشتر خطوں خصوصاً جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں چاولوں میں سنکھیا کی موجودگی پہلے ہی ثابت ہوچکی ہے۔
مگر موسمیاتی تبدیلیوں نے اس زہریلے عنصر کی سطح میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ چاولوں کے پودے زیادہ سنکھیا کو جذب کر رہے ہیں جس سے صحت کو لاحق خطرات میں ڈرامائی حد تک اضافہ ہوا ہے۔
چاولوں میں سنکھیا آلودہ مٹی اور آبپاشی کے لیے استعمال ہونے والے زیرزمین پانی سے شامل ہوتا ہے۔
مگ تحقیق میں بتایا گیا کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بڑھنے کے باعث چاول کے پودوں میں ایسی کیمیائی تبدیلیاں ہو رہی ہیں جن کے باعث ان میں سنکھیا جمع ہونے کی مقدار بڑھ رہی ہے۔
اسی طرح چاولوں کو سنکھیا ملے پانی میں پکانے کے عمل سے بھی اس زہریلے مادے سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
درجہ حرارت اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج بڑھنے سے چاول جیسی اہم ترین غذا میں سنکھیا کی سطح بڑھ رہی ہے اور یہ زہر لوگوں کے جسم میں جاکر ایشیائی ممالک میں 2050 تک کینسر کے کروڑوں نئے کیسز کا باعث بن سکتا ہے۔
10 سال تک جاری رہنے والی تحقیق کے دوران کاشت کے دوران چاولوں کی 28 اقسام کا جائزہ لیا گیا تھا۔
ایشیا کے 7 ممالک بھارت، چین، بنگلادیش، ویتنام، انڈونیشیا، میانمار اور فلپائن میں سنکھیا سے صحت پر مرتب ہونے والے اثرات کا تجزیہ کیا گیا۔
صرف چین میں ہی سنکھیا کے باعث 2050 تک کینسر کے ایک کروڑ 34 لاکھ کیسز سامنے آسکتے ہیں۔
اس سے ہٹ کر دیگر بیماریوں جیسے امراض قلب، ذیابیطس، نشوونما کے مسائل اور مدافعتی افعال کمزور ہونے کا خطرہ بھی بڑھ سکتا ہے۔
