نہ بکنے والی چینی پٹرول گاڑیاں اب دنیا بھرمیں فروخت

چین نے نہ بکنے والی گاڑیوں کو عالمی مارکیٹ میں پیش کر دیا فائل فوٹو چین نے نہ بکنے والی گاڑیوں کو عالمی مارکیٹ میں پیش کر دیا

چین میں الیکٹرک گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی مقبولیت نے نہ صرف غیر ملکی آٹو میکرز کو شدید متاثر کیا بلکہ کئی چینی روایتی کار ساز کمپنیوں کی پٹرول گاڑیوں کی فروخت بھی گر گئی۔

مقامی مارکیٹ میں دباؤ بڑھنے کے بعد چینی کمپنیوں نے وہی گاڑیاں بڑے پیمانے پر بیرونِ ملک بھیجنا شروع کر دیں، جس سے پٹرول گاڑیوں کی چینی برآمدات نئی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔

رپورٹس کے مطابق چین کی الیکٹرک وہیکل انڈسٹری نے چند سالوں میں ہی اپنے گھریلو بازار کا نصف حصہ حاصل کر لیا، جس کے نتیجے میں پٹرول سے چلنے والی گاڑیوں کی فروخت بری طرح متاثر ہوئی۔ اس تبدیلی نے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ کئی بڑے چینی لیگیسی آٹو میکرز کی فروخت کو بھی شدید نقصان پہنچایا، جس کے بعد انہوں نے غیر فروخت شدہ پٹرول گاڑیاں بڑی تعداد میں عالمی مارکیٹوں میں بھیجنا شروع کر دیں۔

جبکہ مغربی ممالک چین کی سبسڈی یافتہ الیکٹرک گاڑیوں پر ٹریف اور پابندیوں کے ذریعے ردعمل دے رہے ہیں، امریکی اور یورپی کمپنیوں کو اب چین کی کم قیمت پٹرول گاڑیوں سے بھی سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ پولینڈ، جنوبی افریقا، یوراگوئے اور متعدد دیگر ترقی پذیر ممالک میں چینی پیٹرول گاڑیوں کا سیلاب دیکھا جا رہا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق 2020 سے اب تک چین کی 76 فیصد گاڑیوں کی برآمدات فوسل فیول یعنی پٹرول اور ڈیزل ماڈلز پر مشتمل رہی ہیں۔ چین کی مجموعی گاڑیوں کی برآمدات 2020 کے ایک ملین یونٹس سے بڑھ کر اس سال 6.5 ملین تک پہنچنے کا امکان ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی الیکٹرک وہیکل پالیسیوں اور سبسڈیز نے ملکی الیکٹرک وہیکل کمپنیوں کی مدد کی، مگر اس کے نتیجے میں روایتی گاڑی بنانے والوں کی گھریلو فروخت گر گئی۔ بڑے برانڈز کے ساتھ مشترکہ منصوبے چلانے والی چینی سرکاری کمپنیاں اپنی فروخت کم ہونے کے باعث اب بیرونِ ملک مارکیٹوں پر زیادہ انحصار کر رہی ہیں۔

چین میں سالانہ فروخت 2020 میں 14 لاکھ گاڑیوں سے کم ہو کر 2024 میں صرف 4 لاکھ 35 ہزار رہ گئی۔ اسی طرح ڈونگ فینگ نے گزشتہ برس 2 لاکھ 50 ہزار گاڑیاں بیرونِ ملک بھیجیں، جو پانچ سال میں تقریباً چار گنا اضافہ ہے۔

کمپنیوں کے مطابق گھریلو مارکیٹ میں مسابقت سخت ہونے کے باوجود بیرونِ ملک ان کی پوزیشن بہتر ہو رہی ہے، خصوصاً اُن ممالک میں جہاں ابھی الیکٹرک وہیکل چارجنگ انفراسٹرکچر محدود ہے۔ ان علاقوں میں صارفین اب بھی کم قیمت پیٹرول گاڑیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل المدتی حکمتِ عملی کے تحت چین کا ہدف عالمی سطح پر الیکٹرک وہیکل مارکیٹ میں غلبہ حاصل کرنا ہے، مگر موجودہ مرحلے میں چینی کمپنیاں اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے وہی گاڑیاں بھیج رہی ہیں جن کی گھریلو مانگ کم ہو چکی ہے۔

install suchtv android app on google app store