بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھارت کے جی ڈی پی، گراس ویلیو ایڈڈ اور دیگر کلیدی معاشی اشاریوں پر مشتمل قومی اکاؤنٹس ڈیٹا کو اپنی سالانہ رپورٹ میں دوسری کم ترین درجہ بندی، یعنی 'سی گریڈ' دیا ہے۔ اس درجہ بندی کا مطلب ہے کہ بھارت کے جاری کردہ معاشی اعدادوشمار میں واضح کمزوریاں موجود ہیں اور یہ مکمل طور پر قابلِ اعتماد نہیں سمجھے جاتے۔
آئی ایم ایف کے سالانہ جائزے کے مطابق بھارت اگرچہ معاشی اعدادوشمار وقت پر جاری کرتا ہے، تاہم ان کے جمع کرنے، تشکیل دینے اور جاری کرنے کے طریقہ کار میں نمایاں نقائص ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت اب بھی 2011-12 کے پرانے بیس ایئر کے مطابق اپنا جی ڈی پی تیار کرتا ہے، جبکہ دنیا بھر میں یہ طریقہ کار کافی عرصہ پہلے تبدیل ہو چکا ہے۔
اس صورتحال کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ آج کی معیشت کا حساب 13 سال پرانی قیمتوں سے لگایا جا رہا ہے جس سے قدرتی طور پر نتائج مسخ ہوتے ہیں۔
آئی ایم ایف نے نشاندہی کی کہ بھارت مہنگائی اور پیداواری لاگت جانچنے کے لیے پروڈیوسر پرائس انڈیکس کے بجائے ہول سیل پرائس انڈیکس استعمال کرتا ہے، جو اب عالمی معیار کے مطابق نہیں رہا۔
اس سے مہنگائی اور حقیقی معاشی ترقی کی پیمائش میں غلطیوں کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ سنگل ڈیفلیشن کے زیادہ استعمال سے بھی معاشی تخمینوں میں بگاڑ پیدا ہوسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت کے پیداواری اور اخراجاتی طریقہ کار سے حاصل ہونے والے قومی اکاؤنٹس تخمینوں میں کئی بار نمایاں فرق سامنے آیا ہے، جو اخراجاتی ڈیٹا کی کمزوری اور غیر رسمی معاشی شعبے کی ناکافی کوریج کی نشاندہی کرتا ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی کہا کہ بھارت کے معاشی اعدادوشمار میں سیزنل ایڈجسٹمنٹ شامل نہیں، جبکہ سہ ماہی قومی اکاؤنٹس تیار کرنے میں استعمال ہونے والے طریقے بھی عالمی معیار کے مطابق نہیں ہیں اور بہتری کے متقاضی ہیں۔
مزید برآں، رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ بھارت کو سرمایہ کاری سے متعلق اشاریے، خصوصاً گراس فکسڈ کیپٹل فارميشن کو مزید تفصیل کے ساتھ جاری کرنا چاہیے تاکہ معیشت کے رجحانات کا بہتر تجزیہ کیا جا سکے۔
مجموعی طور پر آئی ایم ایف نے واضح کیا کہ بھارت کو اپنے معاشی ڈیٹا کے معیار، کوریج اور طریقہ کار میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ اس کے جاری کردہ اعدادوشمار زیادہ مستند، جدید اور عالمی معیار کے مطابق ہوں۔
دیگر شعبوں جیسے مہنگائی، مالیاتی نظام، حکومتی مالیات اور بیرونی شعبےکے لحاظ سے بھارت کو مجموعی طور پر ’بی گریڈ’ ملا ہے۔ کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) کے لیے بھی بھارت کو ’بی‘ گریڈ دیا گیا، مگر یہاں بھی بیس ایئر اور اشیائے ضروریہ کی بیس پرانی ہونے کی وجہ سے اعدادوشمار موجودہ صارفین کی اصل خریداری کی عادات کو درست طور پر ظاہر نہیں کرتے۔
آئی ایم ایف نے بتایا کہ بھارت کے ڈیٹا سے متعلق مسائل گزشتہ سال کی درجہ بندی کے مقابلے میں تقریباً جوں کے توں ہیں۔
البتہ یہ تسلیم کیا کہ بھارت اپنے جی ڈی پی اور سی پی آئی کے بیس ایئر کو اپڈیٹ کرنے کی تیاری کر رہا ہے، اور نئی سیریز 2026 کے اوائل یا وسط میں جاری کیے جانے کا امکان ہے۔