ہسپتال میں ہنگامہ آرائی کے ملزم وکلا کے خلاف خصوصی عدالت کا بہت بڑا اقدام

 پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہنگامہ آرائی کا ایک منظر فائل فوٹو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہنگامہ آرائی کا ایک منظر

 صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہنگامہ آرائی کے ملزم وکلا کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔

بدھ کو اس ہسپتال پر دو سو سے زیادہ وکیلوں نے دھاوا بول کر وہاں توڑ پھوڑ کی تھی اور سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔

پولیس نے جمعرات کی دوپہر 46 ملزمان وکلا کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج عبدالقیوم خان کے سامنے پیش کیا۔

عدالت نے مختصر سماعت کے بعد وکلا کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم دیا۔

صحافی عباد الحق کے مطابق جب پولیس نے ملزمان کو عدالت میں پیش کیا تو ان کے چہرے ڈھانپے گئے تھے اور اس موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

خیال رہے کہ چند روز قبل چند وکلا نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں علاج کے بعد ادویات کی مفت فراہمی کا مطالبہ کیا تھا وہ پورا نہ ہونے کی وجہ سے وکلا اور ہسپتال انتظامیہ میں لڑائی ہوئی تھی۔

بدھ کو انتظامیہ اور وکلا کے درمیان مذاکرات ہونے تھے تاہم وکلا گروہ کی شکل میں ہسپتال آئے اور انھوں نے حملہ کیا۔ اس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ہسپتال میں داخل مریض بھی متاثر ہوئے تھے اور حکام کے مطابق ہنگامہ آرائی کے دوران تین مریض طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک بھی ہوئے ہیں۔

پولیس نے ہنگامہ آرائی کرنے والے وکلا کے خلاف تعزیراتِ پاکستان اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت دو مختلف مقدمات درج کیے ہیں۔

پہلا مقدمہ ہسپتال کے عملے کے ایک رکن کی مدعیت میں 250 سے زائد وکلا کے خلاف قتلِ خطا، کارِ سرکار میں مداخلت، دہشت پھیلانے، ہوائی فائرنگ کرنے، زخمی اور بلوہ کرنے، لوٹ مار، عورتوں پر حملہ کرنے اور سرکاری مشینری اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہچانے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔

اس مقدمے میں 21 وکلا کو، جن میں لاہور بار کے جنرل سیکرٹری اور نائب صدر بھی شامل ہیں، نامزد کیا گیا ہے جبکہ باقی نامعلوم ہیں۔

دوسرا مقدمہ پولیس مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں پولیس وین کو جلانے، پولیس پر حملہ آور ہونے جیسے الزامات کے تحت دفعات لگائی گئی ہیں۔

وکلا کی جانب سے جمعرات کو صوبے بھر میں ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے تاہم حکومت اور ضلعی انتظامیہ ان سے مذاکرات کی کوشش کر رہی ہے۔

وکلا کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جب تک ان کے ساتھیوں کو رہا نہیں کیا جاتا تب تک مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ وکلا کی ہڑتال کے باعث عدالتوں میں جمعرات کو کام نہیں ہو سکا۔

جمعرات کی صبح سی سی پی او لاہور ذولفقار حمید نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’شہر کی صورتحال فی الحال قابو میں ہے۔ ڈاکٹروں اور وکلا دونوں نے ہڑتال کا اعلان کیا ہوا ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ وہ صرف احتجاج کی حد تک ہے۔‘

ینگ ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف پر مشتمل گرینڈ ہیلتھ الائنس نے بدھ کے واقعے پر تین دن کے لیے یوم سیاہ منانے کا اعلان کر رکھا ہے۔

جمعرات کو لاہور ہائی کورٹ بار میں وکلا تنظیموں کے ایک مشترکہ اجلاس میں ہائی کورٹ بار، پنجاب بار کونسل اور ضلعی بار کی قیادت میں وکلا اپنا اگلا لائحہ عمل طے کریں گے۔

رینجرز کی تعیناتی
شہر میں کشیدہ صورتحال اور پنجاب بار کونسل کی جانب سے ہڑتال کے اعلان کے پیش نظر لاہور کے اہم مقامات پر رینجرز کی تعیناتی کی منظوری بھی دے دی گئی ہے۔

وزارت داخلہ نے ڈی جی رینجرز کو شہر میں امن و امان برقرار رکھنے کی غرض سے لاہور کے مختلف مقامات پر دس پلاٹون رینجرز تعینات کرنے کی سفارش کی تھی۔

ان مقامات میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، گورنر ہاؤس، پنجاب اسمبلی، پنجاب سول سیکرٹیریٹ، سپریم کورٹ آف پاکستان (لاہور رجسٹری)، لاہور ہائی کورٹ اور دیگر جگہیں شامل ہیں۔

سپریم کورٹ وکلا کے خلاف شکایات کا جائزہ لے گی
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق اسلام آباد میں بلوچستان میں ملازمتوں سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جج دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بدھ کو پیش آنے والے لاہور کے واقعے کے بعد سب کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں ہی وکلا کی انضباطی کمیٹی کا اجلاس 13 دسمبر کو سپریم کورٹ میں ہو گا جس میں وکلا کے خلاف شکایات کا جائزہ لیا جائے گا۔

اس انضباطی کمیٹی میں چیئرمین کے علاوہ پاکستان بار کونسل کے چار ارکان شامل ہوتے ہیں۔ یہ انضباطی کمیٹی وکلا کے خلاف آنے والی شکایات اور اس پر کی گئی کارروائی کے بارےمیں غور کرے گی۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ کا کہنا ہے کہ اس انضابطی کمیٹی نے جرم ثابت ہونے پر متعدد وکلا کے لائسنس مسوخ اور معطل کیے ہیں۔

جسٹس عمر عطا بندیال پہلی مرتبہ اس انضباطی کمیٹی کی سربراہی کریں گے۔ اس سے پہلے جسٹس عظمت سعید کے پاس اس کمیٹی کی سربراہی تھی۔

وکلا کا ہسپتال کے اندر ’حملہ‘
ایف آئی آر کے مطابق بدھ کے روز دن 12 بجے 200 سے 250 مسلح و مشتعل وکلا ایمرجنسی گیٹ کو توڑتے ہوئے زبردستی ہسپتال کی عمارت میں داخل ہوئے اور مختلف ٹولیوں میں بٹ کر ہسپتال کے مختلف شعبوں میں توڑ پھوڑ کی

وکلا نے ڈیوٹی پر موجود سکیورٹی سٹاف، میڈیکل سٹاف اور ڈاکٹرز پر تشدد کیا اور ہسپتال کے قیمتی آلات اور سامان کو توڑا جس سے ہسپتال میں موجود مریض اور ان کے لواحقین شدید خوف و ہراس کا شکار ہو گئے۔ وکلا نے ڈاکٹروں کی گاڑیوں کو بھی نقصان پہنچایا۔

ایف آئی آر نے مطابق حملہ آور مسلح وکلا کے ایک گروہ نے نرسز ہاسٹل میں داخل ہو کر نرسوں کو بھی زدوکوب و ہراساں کیا، غلیظ گالیاں دیں اور وہاں موجود انچارج نرس کے کپڑے پھاڑے اور ان کے گلے سے لاکٹ اتار لیا۔ وکلا نے مختلف افراد سے ان کی قیمتی اشیا بھی چھین لیں۔

ایف آئی آر کے مطابق توڑ پھوڑ اور زدوکوب کرنے کا عمل تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا جس کے دوران بعض مسلح وکلا نے ہوائی فائرنگ بھی کی۔

پنجاب بار کونسل کا مؤقف
پنجاب بار کونسل کی جانب سے بدھ کو ہونے واقعے کے بارے میں ایک ہنگامی اجلاس کے بعد پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ بار کونسل ’ڈاکٹرز کی جانب سے سوشل میڈیا پر وائرل کی گئی اشتعال انگیز ویڈیو اور پُر امن وکلا پر کیے جانے والے لاٹھی چارج اور آنسو گیس شیلنگ کی مذمت کرتی ہے۔

پنجاب بار کونسل نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وکلا کی ایف آئی آر کے ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے، پولیس تشدد کے ذمہ داران اور وکلا پر تشدد کرنے والے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف کو گرفتار کیا جائے اور ان پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے قرار واقعی سزا دی جائے۔

بار کونسل نے جمعرات کے روز ہڑتال کا بھی اعلان کیا۔

’ویڈیو جو ہنگامہ آرائی کی وجہ بنی‘
وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وکلا اور ہسپتال انتظامیہ کے درمیان پہلے سے مسئلہ چلا آ رہا تھا جس کے بعد فریقین میں صلح صفائی کروا دی گئی تھی تاہم سوشل میڈیا ڈاکٹرز کی جانب سے پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو دیکھنے کے بعد وکلا دوبارہ مشتعل ہوئے۔

اُنھوں نے کہا کہ دو ہفتے قبل ہوئے جھگڑے کو وزیر قانون راجہ بشارت نے حل کروا دیا تھا۔

خیال رہے کہ مذکورہ ویڈیو میں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ایک ڈاکٹر ہسپتال کے احاطے میں کھڑے ہو کر وکلا اور ڈاکٹروں کے درمیان گذشتہ دنوں ہونے والی گفتگو عملے اور دیگر ڈاکٹروں کو بتا رہے ہیں جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ وکلا نے کہا کہ ہم ڈاکٹروں کو ہی آئی سی کے اندر جا کر کچھ نہیں کہہ سکتے۔

اس ویڈیو میں خطاب کرنے والے ڈاکٹر وکلا کی نقل اتار کر مذاق اڑا رہے ہیں۔

ہنگامہ آرائی میں تین مریض ہلاک
بی بی سی کی نامہ نگار ترہب اصغر کے مطابق بدھ کی شام صوبائی وزیر صحت اور صوبائی وزیر اطلاعات اور وزیر قانون نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ ہنگامہ آرائی کے باعث تین مریض دل کا دورہ پڑنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔

پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد کے مطابق ہلاک ہونے والے مریضوں میں ایک خاتون اور دو مرد شامل ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو دی گئی بریفنگ کے دوران بتایا گیا ہے کہ ہنگامہ آرائی میں ملوث 34 وکلا کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ نے ہدایت کی کہ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے ہسپتال میں ہنگامہ آرائی اورتشدد کے ذمہ داروں کی نشاندہی کی جائے اورذمہ داروں کے خلاف قانون کے تحت مقدمات درج کیے جائیں گے۔

پریس کانفرنس میں وزیر قانون راجہ بشارت نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس واقعے کے انکوائری دو محکموں میں کی جائے گی اور ڈاکٹر اور مریضوں کی گاڑیوں کے نقصان کا ازالہ کریں گے۔ انھوں نے بتایا کہ میڈیا کی وجہ سے وکلا کی نشاندہی ہوئی ہے جو اس معاملے میں شامل تھے ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائی گی۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔

یاد رہے کہ وکلا نے احتجاج کے دوران جی پی او چوک بند کر دیا جس کے باعث ارد گرد کے علاقوں میں ٹریفک کی روانی میں خلل پڑا۔

نامہ نگار ترہب اصغر کے مطابق اس ہنگامہ آرائی کی کووریج کرنے والے صحافیوں کو بھی زخمی کیا گیا ہے اور کئی صحافیوں کے موبائل فون بھی توڑے گئے۔

پنجاب کے وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان بھی موقع پر موجود تھے۔ انھوں نے میڈیا سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ وکلا نے انھیں اغوا کرنے کی کوشش کی۔ مقامی ذرائع ابلاغ پر نشر کی جانے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وکلا کا ایک گروہ فیاض الحسن چوہان کو دھکیل رہا ہے۔

نامہ نگار کا کہنا ہے پی آئی سی سے باہر آنے والے ڈاکٹروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پولیس کے ایس ایچ او بابر بھی زخمی ہوئے۔ بعد ازاں وکلا کی ٹولیوں پر بھی حملے کیے گئے۔

رضیہ نامی وکیل نے بتایا کہ 36 وکلا کے سر پھٹے ہیں اور لوہے کے راڈ سے خاتون وکیل کو مارا گیا۔

’یہ قابل شرم ہے‘
سوشل میڈیا پر بھی یہ خبر گرما گرم بحث کا موضوع بنی رہی اور صارفین نے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے ٹویٹ کیا 'بہت دہشت انگیز بات ہے کہ جن لوگوں کو قانون کی پاسداری کرنی چاہیے، وہ دہشت گرد بن گئے جب انھوں نے پی آئی سی لاہور پر حملہ کیا اور اس عمل میں مریضوں کو ہلاک کر دیا۔'

 

 

install suchtv android app on google app store