ایم کیو ایم پاکستان حکومت سے الگ ہوئی تو قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کیا ہو گی؟خالد مقبول صدیقی کے اعلان نے حکومتی وزیروں کی نیندیں اڑا دیں

ایم کیو ایم پاکستان حکومت سے الگ ہوئی تو قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کیا ہو گی؟ فائل فوٹو ایم کیو ایم پاکستان حکومت سے الگ ہوئی تو قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کیا ہو گی؟

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر برائے آئی ٹی خالد مقبول صدیقی کے وزارت چھوڑنے کے اعلان سے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر برائے آئی ٹی خالد مقبول صدیقی کے وزارت چھوڑنے کے اعلان سے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچ گئی ہے جبکہ حکومتی وزیروں کی نیندیں بھی اڑ چکی ہیں ،گوکہ وزیر اعظم عمران خان نے متحدہ قومی موومنٹ کو منانے کے لئے اسد عمر اور گورنر سندھ عمران اسماعیل کو ٹاسک سونپ دیا ہے جبکہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان،فواد چوہدری،شفقت محمود اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بڑے پر امید ہیں کہ ’بحران‘ٹل جائے گا اور ایک بار پھر ایم کیو ایم پاکستان حکومت کے ساتھ مل کر ’’پرانی تنخواہ ‘‘ پر کام کرنے کے لئے راضی ہو جائے گی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر متحدہ قومی موومنٹ ضد پر اڑی رہی تو حکومت کے لئے ایک بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے ۔

وفاق میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت چھوٹی بڑی ’’بیساکھیوں‘‘ کےسہارے کھڑی ہے،حکمران جماعت قومی اسمبلی میں156ذاتی نشستوں کےساتھ اتحادی جماعتوں کے سہارے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ،اتحادی جماعتوں کوساتھ ملانے کےبعدوزیراعظم عمران خان کی حکومت183سیٹوں کےساتھ اقتدارپر براجمان ہےجبکہ اپوزیشن جماعتوں کے پاس 158 نشستیں موجود ہیں،گوکہ ایم کیو ایم کی علیحدگی کے باوجود فوری طور پر تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی خطرہ دکھائی نہیں دے رہا تاہم ایم کیو ایم پاکستان اپنی ساتھ سیٹوں کے ساتھ حکومت سے علیحدہ ہوتی ہے تو عمران خان کی حکومت کو ایک بڑا دھچکا لگے گا اور اپوزیشن مزید مضبوط ہو جائے گی۔

قومی اسمبلی میں تحریک انصاف156 نشستوں کے ساتھ سب سے بڑی جماعت کےطورپربراجمان ہےجبکہ دوسرے نمبرپرپاکستان مسلم لیگ ن ہے جس کی سیٹوں کی تعداد 84 ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی 56 نشستوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر موجود ہے، چوتھے نمبر پر متحدہ مجلس عمل ہے جس کے ارکان کی تعداد 16 ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ ق 5 نشستوں کے ساتھ حکومتی صفوں میں موجود ہے۔

قومی اسمبلی میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس(جی ڈی اے) تین،عوامی مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی ایک، ایک، بلوچستان نیشنل پارٹی چار، بلوچستان عوامی پارٹی پانچ اور آزاد ارکان کی تعداد چار ہے ۔

ایم کیو ایم کی وفاقی وزارت سے علیحدگی کے بعد جی ڈی اے نے بھی حکومت کو آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں اور ملکی سیاسی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جی ڈی اے کا اجلاس جلد بلانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم اگر ایم کیو ایم کا ماضی دیکھا جائے تو متحدہ کی قیادت ہر حکومت میں شامل ہونے کے بعد ایسے ’’دھمکی آمیز ‘‘ بیانات دیتے رہے ہیں اور پھر اپنے بیانات سے ’’یوٹرن‘‘ لینا بھی ایم کیو ایم کا پرانا وطیرہ ہے۔

سردار اختر مینگل بھی چند ماہ سے عمران خان کی حکومت سے ناراض دکھائی دے رہے ہیں جبکہ حال ہی میں تحریک انصاف کے ’’جادوگر‘‘ رہنما جہانگیر خان ترین بلوچی سردار کو ’’رام ‘‘ کرتے دکھائی دیئے تھے تاہم اختر مینگل کی پٹاری میں راکھ وقتی طور دبی ضرور ہے مکمل طور پر بجھی نہیں اور کسی بھی وقت شعلہ جوالہ بن کر حکومتی دیوار کو گرانے کا سبب بن سکتی ہے۔

مسلم لیگ قاف اگرچہ حکومت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی دکھائی دیتی ہے لیکن باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی اپنے صاحبزادے مونس الٰہی کو وفاقی وزیر نہ بنانے پر ’’کپتان ‘‘ سے ناراض ہیں اور وہ بھی کسی ’’مناسب موقع ‘‘ کی تلاش میں ہیں ،جیسے ہی ’’مثبت اشارہ‘‘ ملا وہ بے دھڑک میدان میں کود پڑیں گے۔

ماہرین سیاست کے مطابق قومی اسمبلی میں حکومت بنانے کے لیے 172 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے،ایم کیو ایم کے سات ،مسلم لیگ ق کے پانچ ،بلوچستان نیشنل پارٹی کے چار اراکین قومی اسمبلی حکومت سے الگ ہوئے تو حکومت کا بچنا نا ممکن ہو جائے گا ۔

install suchtv android app on google app store