ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل تیسرے روز بھی جاری

ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل تیسرے روز بھی جاری ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل تیسرے روز بھی جاری

شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت میں ہورہی ہے، جہاں سابق وزیراعظم نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل کا سلسلہ آج تیسرے روز بھی جاری ہے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز حتمی دلائل دیتے ہوئے خواجہ حارث نے موقف اختیار کیا تھا کہ لندن فلیٹس کبھی نواز شریف کی ملکیت میں نہیں رہے جبکہ استغاثہ نے نواز شریف کی آمدن کے معلوم ذرائع سے متعلق دریافت نہیں کیا اور نہ ہی دوران تفتیش نواز شریف کے ذرائع آمدن کا پتا چلایا گیا۔ ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا تھا کہ جب آمدن کے ذرائع ہی معلوم نہیں کیے تو آمدن اور اثاثوں میں تضاد کیسے معلوم کیا؟

خواجہ حارث کا مزید کہنا تھا کہ ہوا میں بات نہیں کرنی ہوتی بلکہ تفتیش میں ثابت کرنا ہوتا ہے۔

آج کی سماعت میں خواجہ حارث نے دلائل کا سلسلہ وہیں سے جوڑا جہاں کل ٹوٹا تھا۔

خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جےآئی ٹی ایک تفتیشی ایجنسی تھی، جو تفتیش کے لیے قانون وضع کرتی ہے کہ قابل قبول شہادت کونسی ہے اور کونسی نہیں؟

ان کا کہنا تھا کہ معمول کا کوئی کیس ہوتا تو معاملہ تفتیش کے لیے نیب کے سپرد کیا جانا تھا، جس پر نیب تفتیش کرتا اور پھر ریفرنس دائر ہوتا۔

 خواجہ حارث نے سپریم کورٹ کے 20 اپریل 2017 کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ نےکہا کہ نیب کارروائی سےگریزاں ہے، اس لیے جےآئی ٹی بنا رہے ہیں،جسے تفتیش کرنے کا کہا گیا تھا۔

نواز شریف کے وکیل کے مطابق عدالت نے کہا کہ جے آئی ٹی کے پاس تفتیش کے تمام اختیارات ہوں گے، عدالت نے جے آئی ٹی کو نیب اور ایف آئی اے کے اختیارات بھی دیئے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ جےآئی ٹی سربراہ کا کام صرف تفتیش کرکے مواد اکٹھا کرنا تھا اور جے آئی ٹی رپورٹ تفتیشی رپورٹ ہی تھی، کوئی نتیجہ اخذ کرنا جے آئی ٹی کا اختیار نہیں تھا۔

انہوں نے کہا کہ تفتیش اور عدالتی کارروائی دو الگ الگ مراحل ہیں، تفتیش میں جمع شدہ مواد کی روشنی میں نتائج عدالت میں اخذ ہوتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر نتائج بھی تفتیشی ایجنسی نکال دے تو استغاثہ کا کام کیا رہ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی جےآئی ٹی کے جمع شدہ مواد کی روشنی میں ریفرنس دائر کرنےکا کہا۔

خواجہ حارث نے دلائل کے دوران کہا کہ جے آئی ٹی سربراہ کے اخذ کیے گئے نتائج اور رائے قابل قبول شہادت نہیں جبکہ واجد ضیاء نے وہ چیزیں بھی پیش کیں، جن کا کیس سےتعلق نہیں تھا۔

نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای اور فنانشل اسٹیٹمنٹ کا بھی اس کیس سے تعلق نہیں۔

انہوں نے کہا کہ استغاثہ 161کا بیان اپنے فائدےکے لیے استعمال نہیں کرسکتا، لیکن ملزم چاہے تو 161 کا بیان اپنے حق میں استعمال کرسکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بیان کی آڈیو، ویڈیو ریکارڈنگ بطور ثبوت پیش نہیں کی جاسکتی۔

خواجہ حارث نے جج محمد بشیر کو مخاطب کرتے ہوئے دلائل کے دوران کہا کہ کچھ غیرحل شدہ معاملات ہیں، جن پر بحث کے بعد آپ کو فیصلہ کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تفتیشی رپورٹ میں رائے ہوتی ہے، اسی لیے یہ قابل قبول شہادت نہیں۔

اس موقع پر جج محمد بشیر نے کہا کہ آپ جےآئی ٹی کا متعلقہ حصہ چیلنج کرتے، آپ نے پوری رپورٹ چیلنج کردی۔

جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جےآئی ٹی رپورٹ پر ہم ساتھ ساتھ اعتراضات عائد کرتے رہے ہیں۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیئے کہ اُس مرحلے پر مشکل ہو رہی تھی، اب اس مرحلے پر یہ معاملہ بھی طے کریں گے۔

خواجہ حارث کے دلائل کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔

نیب ریفرنسز کا پس منظر

سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے، جو ایون فیلڈ پراپرٹیز، العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسمنٹ سے متعلق ہیں۔

نیب کی جانب سے ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے بیٹوں حسن اور حسین نواز، بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کو ملزم ٹھہرایا گیا۔

العزیزیہ اسٹیل ملز جدہ اور 15 آف شور کمپنیوں سے متعلق فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز اب تک احتساب عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوئے جس پر عدالت انہیں مفرور قرار دے کر ان کا کیس الگ کرچکی ہے۔

نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نواز شریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔

جب کہ العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ضمنی ریفرنس میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر نامزد ہیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 10 جون کو سماعت کے دوران احتساب عدالت کو شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنسز پر ایک ماہ میں فیصلہ سنانے کا حکم دیا تھا۔

install suchtv android app on google app store