قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس واپس لے لیا۔ نیب کے ریفرنس واپس لینے پر احتساب عدالت نے سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ اس سے قبل نیب نے شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید نے شاہد خاقان عباسی اور دیگر کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کی جس سلسلے میں ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب اظہر مقبول عدالت میں پیش ہوئے جب کہ شاہد خاقان کے وکلا بھی عدالت میں موجود تھے۔
اس دوران نیب کی طرف سے درخواست دائر کی گئی جس میں نیب نے شاہد خاقان عباسی اور دیگر کے خلاف ایل این جی ریفرنس واپس لینے کی استدعا کی۔
عدالت نے نیب کی ریفرنس واپس لینے کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے شاہد خاقان سمیت تمام ملزمان کو ریفرنس سے بری کردیا۔
یاد رہے کہ نیب انکوائری میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ سوئی سدرن کیس کمپنی لمیٹٰڈ (ایس ایس جی سی ایل) اور انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم کی انتظامیہ نے غیر شفاف طریقے سے ایم/ایس اینگرو کو کراچی پورٹ پر ایل این جی ٹرمینل کا کامیاب بولی دہندہ قرار دیا تھا۔
اس کے ساتھ ایس ایس جی سی ایل نے اینگرو کی ایک ذیلی کمپنی کو روزانہ کی مقررہ قیمت پر ایل این جی کی ریگیسفائینگ کے 15 ٹھیکے تفویض کیے تھے۔
نہ صرف شاہد خاقان عباسی بلکہ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر بھی اپنی مرضی کی 15 مختلف کمپنیوں کو ایل این جی ٹرمنل کا ٹھیکا دے کر اختیارات کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
2016 میں مسلم لیگ (ن) کی دورِ حکومت میں نیب کراچی میں منعقدہ ریجنل بورڈ کے اجلاس میں شاہد خاقان عباسی کے خلاف انکوائری بند کردی تھی۔
شاہد خاقان عباسی کے خلاف 2 انکوائریز کی منظوری دی گئی تھی، جب وہ سابق وزیر پیٹرولیم اور قدرتی وسائل تھے، ان انکوائریز میں سے ایک ایل این جی کی درآمدات میں بے ضابطگیوں میں ان کی مبینہ شمولیت جبکہ دوسری نعیم الدین خان کو بینک آف پنجاب کا صدر مقرر کرنے سے متعلق تھی۔
تاہم شاہد خاقان عباسی کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے ایل این کی درآمد کے لیے دیے گئے ٹھیکے میں کوئی بے ضابطگی نہیں کی اور وہ ہر فورم پر اپنی بے گناہی ثابت کرسکتے ہیں اور یہ کہ 2013 میں ایل این جی برآمد وقت کی اہم ضرورت تھی۔