پورٹ قاسم پر 60 ارب روپے کے ڈریجنگ ٹھیکے میں بے ضابطگیوں کا الزام، ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے وزیراعظم سے مداخلت کی اپیل کردی۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کی جانب سے 60 ارب روپے مالیت کا ڈریجنگ ٹھیکہ براہِ راست دینے کی کوشش اور اس کیلئے مبینہ طور پر وزیراعظم کی ’’فوری ہدایات‘‘ کا غلط حوالہ دینے پر ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے وزیراعظم سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے۔
وزیراعظم کے مشیر کو لکھے گئے خط میں ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے بتایا کہ اسے ایک شکایت موصول ہوئی ہے جس میں الزام ہے کہ پورٹ قاسم اتھارٹی اور حال ہی میں قائم کیے گئے ادارے نیشنل ڈریجنگ اینڈ میرین سروسز (این ڈی ایم ایس) نے ملک میں میری ٹائم ڈریجنگ کے سب سے بڑے منصوبے کو مسابقتی نیلامی کے بغیر ایک نجی کمپنی کو دینے کی منصوبہ بندی کی جو کہ پی پی آر اے قواعد کی واضح خلاف ورزی ہے۔
شکایت کے مطابق، کراچی پورٹ ٹرسٹ، گوادر پورٹ اتھارٹی اور نیشنل لاجسٹک کارپوریشن کے تعاون سے جولائی 2025 تک قائم ہونے والا ادارہ این ڈی ایم ایس تقریباً 200 ملین ڈالر (60 ارب روپے) کا ڈریجنگ ٹھیکہ براہِ راست کنٹریکٹ کی بنیاد پر دینے والا تھا، اور اس کیلئے یہ جواز بنایا گیا کہ وزیراعظم نے پورٹ قاسم پر ڈریجنگ تیز کرنے کے ’’فوری اقدامات‘‘ کی ہدایت کی ہے۔
ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے شکایت کا جائزہ لینے کے بعد کہا ہے کہ بادی النظر میں یہ الزامات درست معلوم ہوتے ہیں۔
تنظیم نے نشاندہی کی کہ پورٹ قاسم پر ڈریجنگ کا منصوبہ گزشتہ 17 برس سے مؤخر ہے، حالانکہ 2007 میں پورٹ قاسم اتھارٹی نے چینل کو 14 میٹر تک گہرا کرنے کا منصوبہ دیا تھا۔
2008 میں جاری کیے گئے ٹینڈر میں کم ترین بولی 10.7 ارب روپے تھی، جو بغیر کسی وضاحت کے منسوخ کر دی گئی۔
تنظیم کے مطابق مسلسل تاخیر کی وجہ سے اس منصوبے کی لاگت بڑھ کر 60 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔
ٹرانس پیرنسی نے خبردار کیا کہ پی پی آر اے رولز سے استثنیٰ حاصل کرنے کی یہ کوشش بظاہر اس قدر بڑے ٹھیکے کو ایک مخصوص کمپنی کو غیر شفاف طریقے سے دینے کی سعی لگتی ہے، جس سے قومی خزانے کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم نے حال ہی میں لیاری ایکسپریس وے کا ٹھیکہ بغیر ٹینڈر دینے کے معاملے پر انکوائری کا حکم دیا تھا، اس لیے حکومت کو چاہیے کہ پورٹ قاسم اتھارٹی کے اقدامات کی جانچ کیلئے اسی طرح کی تحقیقات فوری طور پر شروع کی جائیں۔
ٹرانس پیرنسی نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ دو دہائی قبل جو کام 10 ارب روپے کی اصل کم ترین قیمت پر ہونے والے کام کو روکنے والے شخص کا احتساب کیا جائے، کیونکہ اس اقدام کی وجہ سے اس پروجیکٹ کے اخراجات 600 فیصد تک بڑھ چکے ہیں۔
ٹی آئی پی نے وزیر اعظم سے درخواست کی ہے کہ وہ پورٹ قاسم اتھارٹی کو ہدایت دیں کہ وہ پی پی آر اے روُلز کے مطابق اوپن انٹرنیشنل ٹینڈرز جاری کرے، کیونکہ مسابقتی لحاظ سے تعین کے نتیجے میں پروجیکٹ کی لاگت کم رہنے کا امکان ہوتا ہے۔
تنظیم نے یہ بھی مطالبہ کیا ہے کہ یہ تحقیقات کرائی جائیں کہ پورٹ قاسم اتھارٹی اور این ڈی ایم ایس نے ٹینڈرنگ کے عمل کو کیوں نظر انداز کرنے کی کوشش کی، خصوصاً اس وقت جب براہِ راست کانٹریکٹنگ سے اوپن بڈنگ کے مقابلے میں صرف تقریباً 30؍ دن کی ہی بچت ہوتی ہے۔