جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج کر دی

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی فائل فوٹو جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی چیلنج کردی، جس میں کیس اوپن کورٹ میں چلانے کی استدعا کی گئی ہے، جسٹس مظاہر نقوی نے درخواست کی جلد سماعت کی بھی استدعا کر دی اور شوکاز نوٹس کا جواب بھی دیا گیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی اور دونوں شو کاز نوٹسز چیلنج کر دیے، جسٹس مظاہر نقوی نے درخواست 184 کی شق 3 کے تحت دائر کی۔

سپریم کورٹ میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ 19 فروری2010 کو لاہور ہائیکورٹ میں بطور جج تعینات ہوئے، 16 مارچ 2020 سپریم کورٹ کے جج طور پر ترقی ملی۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو اگر کسی جج کے خلاف شکایات ہوں تو صدر کو بتائی جاتی ہیں۔

درخواست میں کہا کہ 16 فروری 2023کو درخواست گزار کے خلاف سیاسی اور بدنیتی پر مہم کا آغاز کیا گیا اور سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت درج کی گئی۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا کہنا تھا کہ دوسرا شوکاز نوٹس میرے خلاف کارروائی میں نقائص دور کرنے کیلئے جاری کیا گیا ہے، اپنے ابتدائی جواب میں کارروائی کے نقائص اجاگر کئے تھے۔

درخواست میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بھی کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے، درخواست میں مزید کہا گیا ہےمیرے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم عدلیہ پر حملہ ہے، میرے ٹیکس ریٹرن کی تفصیل کسی کو دی نہیں جا سکتی، غیر قانون طور پر حاصل ریکارڑ قابل قبول شہادت نہیں۔

درخواست میں وفاق کو بذریعہ وزارت قانون فریق بنایا گیا ہے اور کہا کہ میرے خلاف شکایات کو کھلی عدالت میں سنا جائے، جوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر نقوی کو دو شو کاز نوٹس جاری کر رکھے ہیں۔

درخواست میں وفاقی حکومت صدر مملکت اور جوڈیشل کونسل کو فریق بنایا گیا اور کہا کہ دلیہ کی خود احتسابی بلاشبہ جوڈیشیل انسٹیٹیوشن کی بحالی کے لیے ضروری ہے، قاضی فائز عیسیٰ کیس میں یہ اصول طے کیا گیا کہ ایک جج کے ساتھ بھی قانون کے تحت برتاو کیا جائے۔

جسٹس مظاہر نقوی کی جانب سے دائر درخواست میں مزید کہا گیا کہ میں سابق سی سی پی او حمید ڈوگر تبادلہ کیس سننے والے بینچ کا حصہ رہا، اس کیس میں 90 دنوں میں انتخابات کا معاملہ زیر بحث آیا۔، دو رکنی بینچ نے انتخابات کے معاملے پر از خود نوٹس لینے کی گزارش کی، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے از خود نوٹس لے کر 9 رکنی بینچ تشکیل دیا۔

دائر درخواست میں کہنا تھا کہ انتخابات کیس میں حال ہی میں جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ میں کہا انتخابات کے انعقاد میں تاخیر شہریوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے برابر ہے، یہ بات ثابت ہے کہ اس وقت کی وفاقی حکومت نے پنجاب اور کے پی میں انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کی، وہ دو رکنی بینچ جس کا میں حصہ رہا اس کے از خود نوٹس لینے کی درخواست پر میرے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی گئی، مہم چلانے والوں میں سابق کابینہ ممبران شامل تھے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ نا صرف میرے خلاف میڈیا ٹرائل چلایا گیا بلکہ پریس کانفرنسز کر کے تضحیک آمیز بیانات جاری کیے گئے ،اس پس منظر کے بعد بار کونسلز بالخصوص پاکستان بار کونسل نے شہباز شریف اور اس کے کابینہ ممبران سے ملاقات کی، اس ملاقات کو 21 فروری 2023کو اخبارات نے رپورٹ کیا، جس کے فوری بعد بار کونسلز کے ممبران بالخصوص وہ افراد جن کی اس وقت حکومت میں لوگوں سے وابستگی تھی مجھ پر مس کنڈکٹ کے الزامات لگائے ، میرے خلاف جوڈیشیل کونسل میں بھیجی گئی شکایات سیاسی مقاصد کے تحت جمع کروائی گئیں۔

install suchtv android app on google app store