وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ اجلاس میں ایمرجنسی کے نفاذ کا حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔
وزیراعظم شہبازشریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں اہم فیصلے کیے گئے۔ اجلاس نے ملک کی مجموعی صورت حال پر تفصیل سے غور کیا۔ وزیر قانون و انصاف سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے عمران خان کی القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں قانونی طور پر گرفتاری اور پھر اچانک سپریم کورٹ کے حکم پر رہائی سے متعلق حقائق پر کابینہ کو بریف کیا۔
وزیر داخلہ نے 9 مئی کو پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جانب سے حساس ریاستی اداروں، عمارتوں، جناح ہاؤس، شہداء اور غازیوں کی یادگاروں کی بے حرمتی، توڑ پھوڑ، قومی نشریات رکوانے، سوات موٹروے،ریڈیو پاکستان سمیت دیگر سرکاری ونجی املاک اور گاڑیوں کو جلانے، سرکاری اہلکاروں اور عام شہریوں پر تشدد، مریضوں کو اتار کر ایمبولینسز کو جلانے جیسے تمام واقعات کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کی۔
وزیراعظم کی زیر صدارت دوسری مرتبہ وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، اجلاس کے دوران ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی تجاویز پر غور کیا گیا تاہم حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔
وفاقی کابینہ کے ارکان میں ایمرجنسی کے نفاذ کا فیصلے پر اختلاف رائے پایا گیا جبکہ حکومتی اتحادی جماعت کی جانب سے آرٹیکل 232 کے نفاذ کی مخالفت کی گئی۔
دوسری طرف فضل الرحمان کی زیرصدارت پی ڈی ایم اجلاس میں بھی ایمرجنسی کی تجویزدی گئی تھی۔
اس سے قبل وفاقی کابینہ اجلاس نے 9 مئی کے واقعات کے خلاف مسلح افواج کے ترجمان کے بیان کی تائید و حمایت کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ریاست، آئین، قانون اور قومی وقار کے خلاف منظم دہشت گردی اور ملک و ریاستی دشمنی کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے اور آئین وقانون کے مطابق سخت ترین کارروائی کرکے ملوث عناصر کو عبرت کی مثال بنایا جائے۔
اجلاس نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کے ’اوپن اینڈ شٹ‘ کیس میں آئین، قانون اور مروجہ قانونی طریقہ کار کے مطابق گرفتاری پر غیرمعمولی مداخلت کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور اسے مس کنڈکٹ قرار دیتے ہوئے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کا وفاقی کابینہ اجلاس سے خطاب
اس سے قبل وفاقی کابینہ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ آج ملک مشکل حالات سے گزر رہاہے۔ چاہے سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں ، بین الاقوامی کساد بازاری کی وجہ سے مہنگائی کو طوفان ہو، آئی ایم ایف کے ساتھ سابق حکومت کا معاہدہ توڑنے کے بعد شرائط پوری کرنی ہوں، ان چیلنجز سے نمٹنے کے لئے حکومت پوری کوشش کر رہی ہے ۔سابق حکومت نے جو گھنائونا کردار ادا کیا ہے وہ آج ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ جب موجودہ حکومت آئینی طریقے سے قائم ہوئی تو عمران نیازی نے کہا کہ یہ امریکا نے سازش کر کے بنوائی ہے۔ عمران نیازی اور اس کے حواری عوام کو یہ باور کرانے کے لئے بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بولتے رہے۔ جس کے بعد قومی سلامتی کمیٹی کے کئی اجلاس ہوئے اور ان کے اعلامیے میں یہ واضح کیا گیا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب نے مل کر اس نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کی ہے جو عمران نیازی کے جھوٹے پراپیگنڈے کی وجہ سے ملک کوہوا اور پھر اسی عمران نیازی نے یہ بیان دیاکہ امریکا نے کوئی سازش نہیں کی تھی۔ وہ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بگاڑنے کے لئےآخری حد تک لے گیا تھا۔ جب آئی ایم ایف سے ہماری بات چل رہی تھی اس وقت خیبر پختونخوااور پنجاب کے وزرائے خزانہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو رکوانے کے لئے خطوط تحریر کئے گئے تاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ نہ ہواور خدانخواستہ پاکستان دیوالیہ ہو جائے ۔ عمران نیازی نے کئی بار سری لنکا کے حالات سے تشبیہ دی۔ وہ چاہتا تھاکہ ملک مالی بحران کا شکارہو جائے۔
وزیراعظم نے کہا کہ عمران نیازی کودھاندلی کے ذریعے جس طریقے سے وزیراعظم بنوایا گیا و ہ کہانی پوری قوم کےسامنے ہے۔ اس پر 2018 سے پہلے ہی کام شروع ہو چکا تھا۔ عمران نیازی کی پوری طرح رہنمائی کی جا رہی تھی کہ فلاں پر جھوٹا الزام اور تہمت لگانی ہے تاکہ لوگوں کہ یہ یقین آجائے وہ فرشتہ اور باقی سیاسی قیادت صحیح نہیں ہے۔ عمران نیازی کی طرف سے پھیلایا جانے والا یہ زہر اب تعلیمی اداروں ، کارخانوں، مدارس سمیت زندگی کے ہر طبقے میں سرائیت کر چکا ہے۔ وہ دن رات چور ڈاکو کی گردان کرتا رہا۔جب وہ اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لئے مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں بھجوا رہا تھا تو اس وقت کسی عدالت نے اس کا نوٹس نہیں لیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ عمران نیازی کے خلاب نیب اور ایف آئی اے نے جو مقدمات بنائے ہیں وہ آزاد ادارے ہیں۔ نیب نیازی گٹھ جوڑ نے ملک میں تباہی مچا دی تھی۔ سرمایہ کاروں کو ملک سے بھگا دیا تھا۔ سیاسی قیادتوں کو مطعون کیاگیا۔ آج جب نیب نے عمران نیازی پر غبن اور کرپشن کے حقیقی مقدمات بنائے ہیں تو انصاف کے راستے میں آہنی دیوارکھڑی کردی گئی ہے ۔عمران نیازی نے جو کچھ کیاہے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ جب ہمارے اوپر جھوٹے مقدمات بن رہے تھے تو بلین ٹری اور بی آر ٹی کی کرپشن پر حکم امتناعی جاری کردی گئی اور ان کی تحقیقات رکوا دی گئی ۔ مالم جبہ کرپشن کیس میں نیب نے کلین چٹ دے دی تھی ، جب صوبائی اداروں نے بی آر ٹی میں اربوں روپے کی کرپشن کی نشاندہی کی تھی، اس وقت کسی نے بھی بلا کا اس کا نہیں پوچھا۔ عمران نیازی نے اپوزیشن کو دنیا بھرمیں بدنام کرنے کا پراپیگنڈاکیا تو اس وقت عمران نیازی کے حواریوں نے ایجنڈابنایا کہ وہ 10 سال فاشسٹ ڈکٹیٹر ہو گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ 9 مئی کا دن 16 دسمبر 1971 کی طرح پاکستان کی تاریخ کاالمناک ترین دن ہے۔ جب سقوط ڈھاکہ ہوا تو قائد کاپاکستان دو لخت ہواتو اس وقت بھی ہر آنکھ اشکبار تھی۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کاعدالتی قتل ہوا لوگوں نے اپنے آپ کو نقصان پہنچایا کسی نے فوجی تنصیبات تک دیکھا تک نہیں ۔اسی طرح جب محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کیاگیا تو اس وقت ایک آمر حکومت کا سربراہ تھا۔ اس وقت بھر پور احتجاج ہوالیکن سابق صدر آصف علی زرداری نے اس وقت پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اس سے بڑی حب الوطنی ،صبر ،برداشت اور پاکستانیت کا ثبوت اور کیا ہو سکتاہے ۔وزیراعظم نے کہا کہ میاں نواز شریف کو جھوٹے مقدمے میں سزا سنائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز روزانہ ٹرائل کے لئے کورٹ میں پیش ہوتےتھے تاکہ انہیں الیکشن سے باہر کردیاجائے ۔ پھر پانامہ ڈرامہ کر کے انہیں اقامہ میں سزا دی گئی۔ جب وہ اڈیالہ جیل میں تھے تو کسی عدالت نے کہا کہ وہ اپنی اہلیہ کی تدفین میں شریک ہوں۔ جب ہماری والدہ کا انتقال ہوا تو تب بھی کسی نے تدفین میں شرکت کی اجازت نہیں دی لیکن کل چیف جسٹس نے عمران خان کو عدالت میں خوش آمدید کہا ۔ یہ کب ہوا کہ ملزم عدالت کے کٹہرے میں آئے تو جج کہے کہ مجھے آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ حضرت عمر رضی للہ تعالی عنہ نے قاضی کو صرف اس وجہ سے برخاست کر دیاتھاکہ جب وہ اس کی عدالت میں پیش ہوئے تو وہ کھڑا ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران نیازی کے خلاف 60 ارب روپے کی کرپشن کامقدمہ ہے۔ شہزاد اکبر نے بند لفافے کو کسی کوکھولنے کی اجازت نہیں دی گئی اور کابینہ کے ارکان سے دستخط کرالئے گئے۔ کیا کسی نے پوچھا کہ یہ خدانخواستہ کشمیر کی فروخت یا حساس تنصیبات کسی کودینےکا معاملہ تو نہیں جس کی بن دیکھے کابینہ منظور دی ،کیاکسی نے اس کا سوموٹو لیاتھا۔
وزیراعظم نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے کہ 60ارب روپے کی کرپشن کے الزامات درست ہیں کہ نہیں ، دوست ملک کے ولی عہد نے خانہ کعبہ کے ماڈل والا جو تحفہ انہیں دیا تھا اسے بھی جعلی رسید وں پر فروخت کر دیا۔اس وقت کسی نے سوموٹو نوٹس کیوں نہیں لیا۔ اسی طرح آصف علی زرداری کی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کو چاند رات کو ہسپتال سے جیل بھجوا دیاگیا تب بھی کسی نے اس پر نہیں پوچھا۔ جب وہ کوٹ لکھ پت جیل میں تھے تو انہیں ایمبولینس کی سہولت بھی نہیں دی گئی لیکن ہم نے یہ سب کچھ برداشت کیا لیکن ہم نے گری ہوئی حرکات کو بھی برداشت کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران نیازی کی گرفتاری کو قانونی قرار دیا ہے لیکن سپریم کورٹ میں انہیں خوش آمدید کہاگیا ۔ یہ ہیں دوہرے معیار ۔عام لوگوں کے ضمانتوں کے مقدمات 10،10 سال سے زیرالتوا ہیں ، ان کی سماعت نہیں ہوتی ، یہاں ایک ہی دن گزار اور عمران نیازی کو بلالیا ۔ جب ہم ضمانت کے لئے درخواست دیتے تھے تو سال ڈیڑھ سال تک تاریخ نہیں ملتی تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ حساس تنصیبات پر جو حملے ہوئے اور جو بلوے ہوئے ان کے لئے اکسانے والا عمران نیازی ہے۔ ہمارے جوانوں اور افسروں نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے اپنی جانوں کو نذرانہ پیش کیا۔ ان کی بھی بے حرمتی کی گئی ۔ اس سےبڑی دشمنی اور درندگی اور کیا ہو سکتی ہے۔ دشمن ملک سے زیادہ اس دن کون خوش تھا جو 75 سال میں دشمن نہیں کرسکا وہ انہوں نے کر دیا۔ اگر عمران نیازی نے ہیرے جواہرات بیچے اور القادر ٹرسٹ میں کرپشن کی تو اسے چھوڑ دیا جائے ، اس کا مطلب ہے کہ عمران نیازی کرپشن کرے تو اسے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اور دوسروں کو جھوٹے مقدموں میں جیلوں میں ڈالے رکھو۔ احسن اقبال پر جان لیوا حملہ ہوا تو دوسرے دن ہی نیب نے گرفتار کرلیا۔ آج صورتحال دلخراش، گھمبیر اور رنجیدہ ہے۔ ۔ عمران خان اگر خائن نہ ہوتاتو جیلوں میں پیش ہوتا وہ ٹوپ پہن کے عدالتوں سے بچتا رہا۔ اگر اس طرح کرناہے پھر تو سب چور ڈاکوئوں کوہی چھوڑ دیاجائے۔اس کامطلب عمران نیازی اور ان کے حواریوں کے لئےاین آر او دینے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ ملک میں آئین اور قانون کی عملدراری قائم کی جائے گی ۔اس کے لئے جو بھی نتائج ہوں ہم بھگتیں گے۔