نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں H3N2 انفلوئنزا وائرس کے کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جسے عام طور پر ’سپر فلو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق حالیہ ہفتوں میں ملک بھر میں 340,856 مشتبہ انفلوئنزا کے کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں ٹیسٹ شدہ نمونوں میں 12 فیصد میں H3N2 وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، وائرس کی نئی جینیاتی ذیلی قسم کی وجہ سے یہ پھیلاؤ تیز ہے۔
پاکستان سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے سینئر سائنسی افسر ڈاکٹر شفیق الرحمن نے کہا کہ نومبر سے پاکستان میں H3N2 انفلوئنزا (سپر فلو) کے تصدیق شدہ کیسز سامنے آئے ہیں، گزشتہ ماہ رپورٹ ہونے والے تقریباً 1,691 کیسز میں سے 12 فیصد سپر فلو کے ہیں۔
ڈاکٹر شفیق نے بتایا کہ وائرس میں جینیاتی تبدیلیاں معمول کے مطابق رونما ہوتی ہیں، لیکن وائرس کا پھیلاؤ دیگر انفلوئنزا اسٹریکس کے مقابلے میں زیادہ تیز ہے۔ انہوں نے ویکسین لگوانے اور بروقت علاج پر زور دیا۔
نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ نے وارننگ جاری کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ عام انفلوئنزا عموماً ہلکی یا درمیانی علامات ظاہر کرتی ہے، لیکن H3N2 شدید بیماری کا سبب بن سکتی ہے، خاص طور پر بزرگ، چھوٹے بچے، حاملہ خواتین، کمزور مدافعت والے اور دائمی بیماریاں رکھنے والے افراد میں۔
وائرس زیادہ تر سانس کے ذرات اور آلودہ سطحوں سے پھیلتا ہے، اور بھیڑ بھاڑ یا کم ہوا دار جگہوں میں اس کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ صحت کے حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ نگرانی، ویکسینیشن اور فوری علاج کے اقدامات مضبوط کریں تاکہ موسمی انفلوئنزا کے بڑھتے ہوئے اثرات سے نمٹا جا سکے۔
حکام نے کہا ہے کہ وائرس ملک بھر میں موجود ہے، لیکن بروقت علاج اور ویکسین کے ذریعے اس کے اثرات کو محدود کیا جا سکتا ہے۔
ماہرین صحت کے مطابق انفلوئنزا کی علامات میں اچانک بخار، شدید تھکن، جسم میں درد اور خشک کھانسی شامل ہیں۔ زیادہ تر افراد ایک ہفتے میں صحتیاب ہو جاتے ہیں، تاہم کمزور افراد میں یہ بیماری شدید ہو سکتی ہے اور اسپتال میں داخلے یا موت کا سبب بن سکتی ہے۔