کئی بار ایسا کچھ فلموں میں نظر آجاتا ہے جس کو دیکھ کر یقین بھی نہیں آتا اور بے یقینی کی کیفت طاری رہتی ہے۔
اور ایک اچھی فلم وہ ہوتی ہے جس کی کہانی لوگوں کے ذہن سے محو نہ ہوسکے بلکہ کئی برس بعد بھی اس کے بارے میں سوالات کے جواب ڈھونڈنے پڑے۔
ایسی ہی ایک فلم ہالی وڈ ڈائریکٹر کرسٹوفر نولان کی 'میمنٹو' ہے، جو اکثر افراد بار بار دیکھتے ہیں اور پھر بھی اکثر پہلوؤں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
2000 کی اس فلم نے ہی ڈائریکٹر کو حقیقی معنوں میں معروف کیا تھا اور اس کی کہانی سے متاثر ہوکر بالی وڈ اسٹار عامر خان کی فلم گجنی بنائی گئی تھی۔
یہ فلم لیونارڈ شیلبے (Guy Pearce) کے گرد گھومتی ہے جس کی یادداشت بیوی کے قتل کے وقت سر پر چوٹ لگنے سے متاثر ہوتی ہے اور ہر چند منٹ بعد وہ سب کچھ بھول جاتا ہے۔
وہ اپنی بیوی کے قاتل کو تلاش کر رہا ہوتا ہے مگر یہ کام اس لیے پیچیدہ ہوتا ہے کیونکہ نئی یادیں ذہن میں محفوظ نہیں رہتیں۔
تو اس کے لیے وہ تصاویر، ٹیٹوز اور پرچیوں کا سہارا لیتے ہیں تاکہ وہ بھول جانے والی چیزوں کو بھی یاد رکھ سکے۔
تجسس، تیز رفتار پلاٹ اور کہانی کے اندر چھپی کہانی اس فلم کو دلچسپ بناتی ہے اور اختتام ایسے مقام پر ہوتا ہے جو ذہن کو جھنجوڑ دیتا ہے، کیونکہ اصل قاتل وہ ہوتا ہے جس کا تصور بھی کسی نے نہیں کیا تھا۔
اس دلچسپ فلم کی تیاری کا عمل بھی بہت دلچسپ تھا جس کے چند حقائق درج ذیل ہیں۔
کہانی کا خیال ایک سفر کے دوران آیا
1996 میں کرسٹوفر نولان شکاگو سے لاس اینجلس کے سفر پر گاڑی میں روانہ ہوئے، ان کے بھائی جوناتھن بھی ان کے ہمراہ تھے۔
اس سفر میں بات چیت کے دوران کرسٹوفر نولان کے بھائی نے ایک ایسے فرد پر فلم بنانے کا خیال پیش کیا جس کی یادداشت چند منٹوں بعد ختم ہو جاتی ہے۔
فلم کو بہت جلد تیار کرلیا گیا
اس فلم کی کہانی تو بہت پیچیدہ تھی مگر اس کی شوٹنگ محض 25 دنوں میں مکمل کرلی گئی تھی۔
فلم کی ریلیز مشکل ثابت ہوئی
فلم کی پیچیدہ کہانی کے باعث کوئی بھی اسے ریلیز کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
ڈائریکٹر نے کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد ڈسٹری بیوٹر کو فلم ریلیز کرنے پر تیار کیا۔
مرکزی کردار براڈ پٹ کو ملنے والا تھا
ڈائریکٹر اس فلم کے مرکزی کردار کے لیے براڈ پٹ کو کاسٹ کرنا چاہتے تھے مگر ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔
دماغی ماہرین کو یہ فلم بہت پسند آئی
ناقدین اور عام ناظرین کے ساتھ ساتھ میمنٹو کو سائنسدانوں نے بھی بہت زیادہ پسند کیا۔
دماغی امراض کے ماہرین نے فلم میں یادداشت سے محرومی کے عارضے کو حقیقت پسندانہ انداز سے پیش کرنے کے عمل کو سراہا تھا۔
ہوٹل کا انتخاب
ڈائریکٹر نے فلم میں دکھائے جانے والے ہوٹل کا انتخاب اس لیے کیا کیونکہ اس کے اندر گھومنا بہت مشکل ہوتا تھا۔
کہانی کا منفرد انداز
یہ کوئی روایتی فلم نہیں بلکہ اس میں کہانی کو آگے کی بجائے پیچھے کی جانب بڑھایا گیا تھا تاکہ ناظرین اس کے پلاٹ کو سمجھ سکیں۔