بھارت کی صورتحال 'انتہائی سنگین اور نازک' ہے، من موہن سنگھ بھی میدان میں آگئے

من موہن سنگھ فائل فوٹو من موہن سنگھ

بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے بھارت کی صورتحال کو 'انتہائی سنگین اور نازک' کہتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ 'جان بوجھ کر مذہبی کشیدگی، مجموعی معاشی بدانتظامی اور صحت کو بیرونی خدشات بھارت کی ترقی اور استحکام کو ڈی ریل کرنے کے لیے خطرہ ہیں۔

بھارت کو اس وقت 'معاشرتی عدم استحکام، معاشی سست روی اور صحت کی عالمی وبا' سے خطرات کا سامنا ہے۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے حالیہ مذہبی فسادات کا ذکر کرتے ہوئے سابق بھارتی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بغیر کسی جانچ پڑتال کے پوری قوم میں معاشرتی تناؤ کی آگ تیزی سے پھیل رہی ہے اور یہ ہماری قوم کے لیے خطرہ ہے۔ اس آگ کو صرف انہیں لوگوں کی جانب سے بجھایا جاسکتا ہے جنہوں نے اسے بھڑکایا ہے۔

من موہن سنگھ نے بھارت کے وزیراعظم اعظم نریندر مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ نہ صرف اپنے الفاظ کے ذریعے بلکہ اپنے کام کے ذریعے قوم کو قائل کریں۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'مذہبی تشدد کا ہر قدم مہاتما گاندھی کے بھارت پر ایک داغ ہے'۔ یاد رہے کہ من موہن سنگھ سال 2004 سے 2014 تک بھارت کے وزیراعظم رہے اور اس کے بعد نریندر مودی کی حکومت آئی تھی۔

'نریندر مودی کو اپنی قوم کو لازمی قائل کرنا ہے کہ وہ جو خطرات ہمیں درپیش ہیں ان سے آگاہ ہیں اور یہ یقین دلائیں کہ وہ اس پر آسانی سے ہماری مدد کرسکتے ہیں'۔

یاد رہے کہ بھارت میں متازع شہریت قانون کے خلاف جاری احتجاج گزشتہ ماہ مذہبی فسادات میں تبدیل ہوگئے تھے۔ 23 فروری کو انتہا پسند ہندوؤں نے مسلم محلوں پر حملہ کرتے ہوئے وہاں آگ لگادی تھی اور مساجد اور مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا تھا۔

ان حملوں کے دوران ہجوم کی جانب سے متعدد لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا یا تشدد کرکے موت کی نیند سلادیا گیا تھا جس کے باعث مجموعی طور پر 42 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں بیشتر مسلمان تھے جبکہ پرتشدد واقعات کے نتیجے میں درجنوں افراد شدید زخمی بھی ہوئے تھے۔

ان پرتشدد کارروائیوں کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کی سازش صریح تھی کیونکہ حملوں کے دوران پولیس آیا کھڑی رہی یا ہجوم کے ساتھ رہی، اس کے علاوہ ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں زخمی مسلمانوں کو پولیس اہلکاروں کی جانب سے زمین پر بیٹھنے اور حب الوطنی کے گانے گانے پر مجبور کیا جارہا تھا جو پولیس اور حملہ آوروں کے درمیان گٹھ جوڑ کو عیاں کرتا ہے۔

یہی نہیں بلکہ ہجوم کے کچھ رہنما بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں کی تعریف کرتے بھی نظر آئے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے مسلمانوں کے خلاف تشدد کی مذمت بھی نہیں کی۔ علاوہ ازیں یہ بھی تصور کیا جارہا کہ یہ حملے آر ایس ایس کے کارکنوں کی جانب سے کیے گئے اور انہیں متنازع شہریت قانون کے خلاف دسمبر سے ہونے والے احتجاج کا جواب کہا جارہا۔

install suchtv android app on google app store