غزہ میں مسلسل موسلا دھار بارشوں نے خیمہ بستیوں کو سیلابی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے، جہاں ہزاروں بے گھر فلسطینیوں کے خیمے پانی میں ڈوب گئے ہیں اور شدید سردی نے انسانی بحران کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق منگل کے روز ہونے والی شدید بارشوں نے خیموں اور عارضی پناہ گاہوں میں مقیم شہریوں کو انتہائی مشکلات سے دوچار کردیا ہے۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ کمزور اور پرانے خیمے بارش کا دباؤ برداشت نہ کرسکے اور بیشتر خیموں میں پانی بھر گیا۔
اکتوبر 2023 میں حماس کے حملے کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں اسرائیلی حملوں نے غزہ کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا، اور 20 لاکھ آبادی کا بڑا حصہ اب بھی خیموں اور عارضی شیڈز میں پناہ لینے پر مجبور ہے۔
اگرچہ اکتوبر کے وسط سے جنگ میں کسی حد تک کمی آئی ہے، مگر تباہ شدہ انفراسٹرکچر کے باعث شہری زندگی بدستور مفلوج ہے۔
خیمہ بستی میں موجود ام احمد عوضہ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ “سردیاں ابھی شروع ہوئی ہیں، مگر حالیہ بارشوں نے ہمیں مکمل طور پر بے بس کر دیا ہے۔
خیمے اور ترپال دو سال سے پرانے ہیں، اب یہ نہ بارش روک سکتے ہیں نہ سردی۔‘‘
فلسطینی این جی اوز نیٹ ورک کے سربراہ امجد الشوا نے خبردار کیا کہ کم از کم 3 لاکھ نئے خیموں کی فوری ضرورت ہے تاکہ اب بھی بے گھر 15 لاکھ فلسطینیوں کو محفوظ پناہ فراہم کی جاسکے۔
فلسطینی سول ڈیفنس کے مطابق گزشتہ ہفتے کی بارشوں کے نتیجے میں ہزاروں خیموں کو نقصان پہنچا، متعدد خیمے بہہ گئے، جبکہ کئی جگہوں پر پانی کی سطح 40 سے 50 سینٹی میٹر تک جا پہنچی۔ بارش کے باعث ایک فیلڈ اسپتال کو بھی اپنا کام روکنا پڑا۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں موسمِ سرما کا امدادی سامان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے، مگر اسرائیلی پابندیوں کے باعث امدادی ٹرکوں کی آمد اب بھی محدود ہے۔
غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے تحت وعدہ شدہ امداد نہیں آنے دے رہا جب کہ امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ بہت سے ضروری سامان کو داخلے سے روکا جا رہا ہے۔
اسرائیل کا مؤقف ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کے تحت اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کر رہا ہے اور امداد کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈال رہا جب کہ امداد کی تقسیم میں سستی یا بدانتظامی کی ذمہ داری امدادی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ حماس نے امداد کی چوری کے الزامات کی تردید کی ہے۔