معمولی سراغ کے باعث خاتون کا قاتل 20 سال بعد کیسے ملا؟ حیرت انگیز کہانی

خاتون کا قاتل 20 سال بعد کیسے ملا؟ فوائل فوٹو خاتون کا قاتل 20 سال بعد کیسے ملا؟

ایک معمولی سے سراغ کے بعد ڈرامائی انداز میں 20 سال بعد خاتون کا قاتل مل گیا، مقتولہ کو سمندر کنارے زیادتی اور آگ لگانے کے بعد بے دردی سے مار دیا گیا تھا۔

تفتیش کاروں کو غیرمعمولی اور سنسنی سے بھرپور اس واردات کا ایک واحد ثبوت ڈی این اے سے ہوا حاصل ہوا جو پولیس کو اُس مشتبہ قاتل تک لے گیا جس نے 20 سال قبل ایک خاتون کو سمندر کنارے شیڈ میں قتل کیا تھا۔

غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق 35سالہ جینیفر کیلی کو 22 جنوری 2005 کی صبح پولیس نے ایسٹ بورن میں مردہ حالت میں پایا تھا۔

اس مردہ خاتون کے جسم پر چاقو کے وار کے متعدد نشانات تھے، سر کے پچھلے حصے پر چوٹ تھی اور سفاک قاتل نے قتل کرنے کے بعد ثبوت مٹانے کیلیے اس کے جسم کو آگ بھی لگا دی تھی۔

اس کیس میں اگرچہ 2005 میں دو افراد کو گرفتار کیا گیا تھا مگر تحقیقات میں کسی پر بھی قتل کا الزام ثابت نہ ہو سکا۔

بعد ازاں جائے وقوعہ سے ملنے والے سگریٹ کے ٹکڑے سے حاصل ہونے والے ڈی این اے میں ایک مکمل مردانہ پروفائل ملا جو جینیفر کے جسم اور خون سے ملنے والے نمونوں سے مطابقت رکھتا تھا۔

پولیس کے مطابق جینیفر کے جسم کے انتہائی حساس حصوں سے بھی ڈی این اے ملا، جس سے اس نتیجے کو تقویت ملی کہ یہ قاتلانہ حملہ جنسی محرکات کے تحت کیا گیا تھا لیکن اُس وقت ملزم کا ڈی این اے پروفائل قومی ڈیٹا بیس میں موجود نہیں تھا۔

تاہم دو دہائیوں بعد پولیس نے کیتھ ڈاؤبیکن نامی شخص کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا اور بتایا کہ ان کے پاس ناقابل تردید ڈی این اے شواہد موجود ہیں لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔

کیونکہ ملزم ڈاؤبیکن جو کیتھ بلیک اور کیتھ براؤڈ بینٹ کے ناموں سے بھی جانا جاتا تھا، سال2014 میں 60 سال کی عمر میں مرگیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ وہ ایسٹ بورن میں جانا پہچانا تھا اور جینیفر جیسے بے گھر افراد کی کمیونٹی کے لوگوں کے ساتھ اس کے گہرے روابط تھے۔

جینیفر کے قتل سے پہلے ڈاؤبیکن کو نارفولک پولیس نے 2003 اور 2004 میں گریٹ یارموتھ میں ہونے والے دو الگ الگ زیادتی کے مقدمات میں گرفتار کیا تھا۔

جینیفر کے قتل کے صرف سات دن بعد، 29 جنوری 2005 کو ڈاؤبیکن کو پورٹ آف ڈوور میں ایک معمول کی چیکنگ کے دوران روکا گیا تھا تاہم اہلکاروں کو اس کے پچھلے ریکارڈ میں کوئی منفی بات نظر نہیں آئی۔

پولیس کے مطابق ڈاؤبیکن نے قتل کے ایک علیحدہ کیس میں گواہ کے طور پر اپنا ڈی این اے دیا تھا لیکن چونکہ وہ مشتبہ نہیں تھا، اس لیے اس کا ڈی این اے ڈیٹا بیس میں شامل نہیں کیا گیا۔

پولیس کو اس کے پچھلے زیادتی کے مقدمات کے بارے میں صرف اس وقت علم ہوا جب 2024 میں اسے باضابطہ طور پر مشتبہ قرار دیا گیا۔

install suchtv android app on google app store