گنج پن کے لیے نئی امید، جاپانی سائنسدانوں کے کامیاب تجربات

گنج پن کے لیے نئی امید، جاپانی سائنسدانوں کے کامیاب تجربات فائل فوٹو گنج پن کے لیے نئی امید، جاپانی سائنسدانوں کے کامیاب تجربات

دائمی گنج پن کے شکار مریضوں کےلیے جاپان سے ایک امید بھری خبر آئی ہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ انسانی بدن سے باہر کسی تجربہ گاہ میں بال اگائے گئے، انہیں منتقل کیا گیا جہاں ان کی افزائش دیکھی گئی ہے۔

جاپان کی یوکوہاما یونیورسٹی کے بایومیڈیکل انجنیئر تاتسوتو کیگی یاما اور ان کے ساتھیوں نے چوہوں کے اسٹیم سیل (خلیاتِ ساق) سے سہ جہتی لوتھڑا (آرگینوئڈ) بنایا ہے۔ ٹیکنالوجی کی مدد سے اب انہیں بنانا آسان ہوگیا ہے اور یوں انہیں طبی تحقیق میں استعمال کیا جارہا ہے۔

ماہرین نے نہ صرف ان سے بالوں کی افزائش کی ہے بلکہ اسے رنگت بھی دی ہے۔ پھر انہیں احتیاط سے گنج پن کے شکار چوہوں میں منتقل کیا گیا تو یہ بال اگنے لگے اور افزائش کے کئی سلسلے مکمل کئے۔

انسان ہو یا دیگر ممالیے، ان میں بالوں کی شاخیں اس وقت بنتی ہیں جب جاندار جنینی مراحل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح اوپری جلد (ایپی ڈرمس) اور نیچے سے منسلک بافتیں یا ٹشو باہم عمل کرتی ہیں اور یوں پورا عضو تشکیل پاتا ہے۔ اس عمل کو ایپی ڈرمل اور میسنکائمل انٹرایکشن کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے انہی دو پہلوؤں پر غور کیا ہے۔

سائنسدانوں نے چوہوں کےجنین سے اسٹیم سیل نکالے اور ان سے جلد یعنی ایپی تھیلیئل خلیات اور میسنکائمل خلیات کشید کئے۔ پھر انہیں میٹریجل میں کلچر کیا گیا جو چوہے سے حاصل کردہ ایک قدرتی جھلی ہے۔ میٹریجل خلیات کو جمع کرکےانہیں ایک ساخت فراہم کرتی ہے۔ تاہم بعض خلوی ساختیں بنا میٹریجل کے بھی کاشت کی گئیں۔

اس طرض دواقسام کے خلیاتی لوتھڑے بنے اور بعد میں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے اور ایک منظم انداز اور ساخت میں ڈھل گئے۔ لیکن میٹریجل شامل کرنے سے ہی کامیابی ملی بقیہ خلیات ناکامی سے دوچار ہوئے۔

پھر جب دونوں اقسام یعنی ایپی تھیلیئل اور میسنکائما خلیات کے مجموعوں کو جوڑا گیا تو پہلے باریک بال نمودار ہوا اور 23 روز میں دو ملی میٹر تک لمبا ہوگیا۔ اس طرح پہلی مرتبہ خلوی سطح پر تجربہ گاہ میں بال اگایا گیا ہے۔

پھر ایک دوا ڈالی گئی جس سے بال اپنی رنگت حاصل کرنے لگے اور زیادہ قدرتی لگنے لگے۔ اس کے بعد مکمل گنجے چوہوں میں بال لگائے گئے اور مقصد یہ تھا کہ ان کےزندہ ہونے کا تعین کیا جائے۔

چوہوں کو اس موقع پر امنیاتی نظام دبانے والی ادویہ دی گئیں تو منتقل شدہ بال بڑھنے لگے، انہیں کاٹا گیا اور یوں دس ماہ تک بال نے افرائش کے کئی چکر مکمل کئے۔

اگرچہ چوہوں پر یہ ایک کامیاب تجربہ ہے لیکن انسانوں پر استعمال کرنے میں ابھی کچھ وقت لگ سکتا ہے۔ انسانوں کے لیے جنین کی بجائے بالغان سے عطیہ کردہ خلیات لے کر انہیں ریورس انجینیئر سے گزار کر اسٹیم سیل بنایا جائے گا، اور توقع ہے کہ یہ عمل کارگرثابت ہوگا۔



install suchtv android app on google app store