وفاقی وزارت داخلہ نے گلگت بلتستان (جی بی) کے وزیر اعلیٰ اور گورنر کو خطے سے باہر کے دوروں کے دوران علاقائی پولیس کو اپنی حفاظت کے لیے استعمال کرنے سے روک دیا۔ حکومت کے اس اقدام پر گلگت بلتستان وزیر داخلہ شمس الحق لون نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ علاقائی حکومت اس ہدایت کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔
گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ کے پاس عام طور پر 8 پولیس اہلکاروں کا حفاظتی دستہ ہوتا ہے، جن کی قیادت ایس پی کے عہدے کا ایک اہلکار کرتا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے جی بی کے چیف سیکریٹری، چیف سیکریٹریز اور تمام صوبوں اور آزاد کشمیر کے پولیس سربراہان اور چیف کمشنر اور ایس پی اسلام آباد کو بھیجے گئے مراسلے میں وفاقی حکومت نے ہدایت کی ہے کہ جی بی کے گورنر اور وزیر اعلیٰ خالد خورشید کے لیے سیکیورٹی انتظامات کیے جائیں اور خطے سے باہر ان کے دوروں کا اہتمام متعلقہ صوبائی اور علاقائی حکومتیں کریں گی۔
زرائع کے مطابق جی بی حکومت وزیراعلیٰ اور گورنر کی سیکیورٹی کے لیے اپنے پولیس اہلکاروں کو تعینات نہیں کرے گی۔
اس ہدایت پر وزیر اعلیٰ کے معاون کی جانب سے سخت ردعمل ملا، جنہوں نے اس اقدام کی مذمت کی اور اعلان کیا کہ جی بی حکومت اس حکم کو قبول نہیں کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ علاقائی حکومت ایسی ہدایات جاری کرنے پر وزارت داخلہ کو عدالت میں لے جائے گی۔
صوبائی وزیر داخلہ نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کو یونٹوں اور وفاق کے درمیان اس طرح کے جھگڑے پیدا کرنے کی کوشش پر ’ذہنی طور پر غیر مستحکم‘ قرار دیا۔
شمس الحق لون نے کہا کہ گلگت بلستان ایک حساس علاقہ ہے، رانا ثنا اللہ نے علاقے کے 20 لاکھ لوگوں کے جذبات سے کھیلا اور وفاقی اور گلگت بلتستان حکومتوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔
رواں ماہ کے اوائل میں زمان پارک میں گلگت اور پنجاب پولیس کے اہلکاروں کے درمیان تصادم کے الزامات کا حوالہ دیتے ہوئے شمس الحق لون نے کہا کہ پنجاب کے آئی جی پہلے ہی ان الزامات کو مسترد کر چکے ہیں۔
صوبائی وزیر داخلہ وزیراعلیٰ نے وزارت داخلہ کے حکم کو امتیازی قرار دیا اور پوچھا کہ ’کیا وزارت نے دوسرے صوبوں سے بھی ایسے اقدامات کے لیے کہا ہے؟‘
خیال رہے کہ 15 مارچ کو وفاقی حکومت نے گلگت پولیس کے سربراہ محمد سعید کو وزیر اطلاعات کے اس دعوے کے تناظر میں ان کے عہدے سے ہٹا دیا کہ جی بی پولیس کے اہلکاروں کو پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کو زمان پارک لاہور میں واقع ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرنے کی کوشش میں پنجاب پولیس کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔