جنرل فیض حمید پر خفیہ دستاویزات اپنے پاس رکھنے کا الزام

ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بعض خفیہ سرکاری دستاویزات اپنے پاس رکھیں فائل فوٹو ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بعض خفیہ سرکاری دستاویزات اپنے پاس رکھیں

باخبر ذرائع کے مطابق 14 سال قید کی سزا پانے والے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد بعض خفیہ سرکاری دستاویزات اپنے پاس رکھیں، حالانکہ وہ ان دستاویزات کو رکھنے کے مجاز نہیں تھے۔

ذرائع نے یہ وضاحت نہیں کی کہ یہ خفیہ دستاویزات کون سی تھیں جن کی بنیاد پر ان پر الزام عائد کیا گیا۔

آئی ایس پی آر کے اعلامیے کے مطابق سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو چار مختلف الزامات میں ٹرائل کے بعد سزا سنائی گئی۔

ان الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی ایسی خلاف ورزی جس سے ریاستی سلامتی کو نقصان پہنچا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا ناجائز استعمال، اور بعض افراد کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔

اگرچہ آئی ایس پی آر نے الزامات کی تفصیلات جاری نہیں کیں، تاہم ذرائع کے مطابق آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت ایک الزام ریٹائرمنٹ کے بعد خفیہ سرکاری دستاویزات اپنے پاس رکھنے سے متعلق تھا۔

اسی طرح سیاسی سرگرمیوں کا الزام سیاستدانوں سے ملاقاتوں اور روابط پر مبنی تھا۔

روزنامہ ’’دی نیوز‘‘ نے دسمبر 2024 میں رپورٹ کیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے ریٹائرمنٹ کے بعد تقریباً 50 سیاستدانوں سے رابطے رکھے، جن میں سے اکثریت کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا۔

2023 کے آرمی ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کے تحت حساس عہدوں پر کام کرنے والے افسران کو ریٹائرمنٹ کے بعد 5 سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں۔

گرفتاری سے قبل فیض حمید کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کی سرگرمیوں کے بارے میں ایک سے زیادہ مرتبہ خبردار کیا گیا، لیکن انہوں نے وہ سرگرمیاں ترک نہیں کیں جن کی بعد میں انکوائری کے دوران جانچ پڑتال ہوئی۔

ایک اور الزام ٹاپ سٹی کے معاملے سے متعلق تھا جس کی تفصیلات پہلے ہی سامنے آچکی ہیں۔ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل پر یہ الزام عائد ہوا کہ انہوں نے اپنا عہدہ استعمال کرتے ہوئے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی سے رقم حاصل کرنے کی کوشش کی۔

فیض حمید کیخلاف کیس ہاؤسنگ سوسائٹی کے موجودہ چیف ایگزیکٹو آفیسر کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست کی بنیاد پر قائم ہوا۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے دہشتگردی کے ایک مبینہ کیس کے حوالے سے ہاؤسنگ پروجیکٹ کے دفتر اور اس کے مالک کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور سونا، ہیرے جواہرات، رقم اور دیگر قیمتی سامان قبضے میں لے لیا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ جنرل فیض نے یہ کارروائی ایک خاتون کی شکایت پر کی تھی جو پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔

ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ جنرل فیض کے بھائی سردار نجف اس معاملے میں ثالثی کرتے رہے اور مسئلے کے حل کی کوشش کرتے رہے۔

درخواست گزار کا دعویٰ تھا کہ راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے دہشت گردی کیس میں بری کیے جانے کے بعد جنرل فیض نے اپنے فوج میں بریگیڈیئر کزن کے توسط سے رابطہ کیا تاکہ ملاقات کا بندوبست ہو سکے۔

درخواست کے مطابق، ملاقات کے دوران جنرل فیض نے اسے بتایا کہ چھاپے کے دوران لیا گیا سامان واپس کر دیا جائے گا، ماسوائے 400 تولہ سونے اور نقد رقم کے۔

درخواست میں یہ الزام بھی لگایا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئرز نے درخواست گزار کو مجبور کیا کہ وہ 4 کروڑ روپے نقد ادا کرے اور چند ماہ کیلئے ایک نجی ٹی وی چینل کی مالی معاونت کرے۔

تاہم، سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ فورمز، بشمول وزارت دفاع، سے رجوع کرے تاکہ اس کی شکایات کا ازالہ ہو سکے۔

جنرل فیض حمید کیخلاف ٹرائل میں ایک الگ الزام بحریہ ٹائون کے ایک سابق ملازم کو نقصان پہنچانے سے متعلق تھا۔

install suchtv android app on google app store