دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان کی سلامتی و خودمختاری کے خلاف استعمال کر رہے ہیں: عاصم افتخار

پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد فائل فوٹو پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد

پاکستان کے مستقل مندوب، سفیر عاصم افتخار احمد نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے افغانستان سے متعلق اجلاس میں کہا ہے کہ افغان سرزمین سے پھوٹنے والی دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔

انہوں نے اپنے خطاب میں سلووینیا کی کونسل میں مؤثر صدارت اور دو سالہ مدت کے دوران نمایاں خدمات پر سراہا، جبکہ یواین اے ایم اے کی ڈپٹی اسپیشل ریپریزنٹیٹو جیورجیٹ گینن، انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر اور سماجی کارکن نگینہ یاری کی بریفنگز کا بھی شکریہ ادا کیا۔

سفیر عاصم افتخار نے کہا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے چار سال بعد بھی افغانستان کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

پاکستان نے اچھے ہمسائیگی کے اصولوں کے تحت طالبان حکام سے مسلسل رابطہ رکھا، متعدد اعلیٰ سطحی دورے کیے، تجارتی سہولیات دیں، انسانی امداد میں تعاون کیا اور علاقائی فورمز میں سرگرم کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کی طالبان سے بنیادی توقع یہ تھی کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی، لیکن وقت کے ساتھ یہ امیدیں کمزور پڑتی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہ بنتا جا رہا ہے، جبکہ اس کے براہ راست اثرات پاکستان سمیت پورے خطے پر مرتب ہو رہے ہیں۔

سفیر کے مطابق طالبان کی جانب سے مؤثر اور فیصلہ کن کارروائی نہ ہونے کے باعث پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں تشویشناک اضافہ ہوا ہے، جن کی منصوبہ بندی، مالی معاونت اور عمل درآمد افغان سرزمین سے ہورہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ صرف رواں سال افغانستان سے آنے والی دہشت گردی کے نتیجے میں پاکستان میں تقریباً 1,200 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ 2022 سے اب تک انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں 214 سے زائد افغان دہشت گرد—خودکش حملہ آور—ہلاک کیے جا چکے ہیں۔

محترمہ صدر،

افغان سرزمین سے پھوٹنے والی دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے۔

داعش خراسان، القاعدہ، ٹی ٹی پی، ای ٹی آئی ایم، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ سمیت متعدد دہشت گرد تنظیمیں افغانستان کی سرزمین پر محفوظ پناہ گاہوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

درجنوں دہشت گرد کیمپ وہاں موجود ہیں جو سرحد پار دراندازی اور خودکش حملوں سمیت تشدد آمیز کارروائیوں کو ممکن بناتے ہیں۔

جیسا کہ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم نے بھی تصدیق کی ہے، ٹی ٹی پی تقریباً 6,000 جنگجوؤں کے ساتھ افغان سرزمین پر موجود سب سے بڑی اقوام متحدہ کی نامزد کردہ دہشت گرد تنظیم ہے۔

پاکستان نے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے دہشت گردوں کی افغانستان سے دراندازی کی متعدد کوششوں کو ناکام بنایا ہے اور بین الاقوامی افواج کے چھوڑے گئے جدید فوجی ساز و سامان کے بڑے ذخیرے ضبط کیے ہیں۔

ان کوششوں کی انسانی قیمت بھی ادا کی گئی ہے جس میں ہماری بہادر سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔

طالبان کی صفوں کے اندر موجود کچھ عناصر ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں اور انہیں آزادانہ اور بے خوف سرگرمیوں کے لیے محفوظ راستے فراہم کر رہے ہیں۔

ایسے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں کہ یہ دہشت گرد گروہ باہمی تعاون کر رہے ہیں جس میں مشترکہ تربیت، غیر قانونی اسلحہ کی تجارت، دہشت گردوں کو پناہ، اور افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف مربوط حملے شامل ہیں۔

اور حیرت کی بات نہیں کہ خطے کا ایک بدخواہ، موقع پرست اور ہمیشہ کی طرح بگاڑ پیدا کرنے والا ملک، پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروہوں اور پراکسیوں کی مادی، تکنیکی اور مالی سرپرستی میں مزید شدت لانے کے لیے تیزی سے متحرک ہو گیا ہے، جو افغان سرزمین سے کارروائیاں کرتے ہیں۔

ہمارا یقین ہے کہ یواین اے ایم اے کو اپنی ذمہ داری کے مطابق افغانستان اور خطے میں غیر قانونی تجارت، چھوٹے اور ہلکے ہتھیاروں کے غیر مستحکم کرنے والے پھیلاؤ اور ان کی منتقلی کو روکنے کے لیے اپنی کوششوں کو مزید مضبوط بنانا چاہیے۔

محترمہ صدر،

سنگین سکیورٹی خدشات کے باوجود، ہم نے طالبان حکام کے ساتھ ہر ممکن حد تک رابطہ برقرار رکھا ہے، جس میں دوحہ اور استنبول میں حالیہ مذاکرات کے دور شامل ہیں۔

ہم قطر اور ترکیہ کی حکومتوں کے مخلصانہ تعاون اور کوششوں کے لیے شکر گزار ہیں۔

طالبان کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق کارروائیاں کرنا ہوں گی۔

بصورت دیگر پاکستان اپنے شہریوں، اپنی سرزمین اور اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے تمام ضروری دفاعی اقدامات کرے گا۔

ہم یواین اے ایم اے سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ سرحد کی سکیورٹی صورتحال کا غیر جانب دارانہ اور حقائق پر مبنی جائزہ پیش کرے۔ سرحدی جھڑپوں سے متعلق واقعات بنیادی طور پر دہشت گردی اور امن و سلامتی کا مسئلہ ہیں۔

طالبان کی جانب سے اپنے انسدادِ دہشت گردی کے وعدوں کی عدم تکمیل نے ہمارے خطے کے سکیورٹی ماحول کو مزید بگاڑ دیا ہے اور عام افغان شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے، جو ان کی غیر انسانی پالیسیوں اور غلط ترجیحات کے براہِ راست نتائج بھگت رہے ہیں۔

پابندیاں، غیر فعال بینکاری نظام، امداد میں مسلسل کمی، غربت، دہشت گردی، منشیات کی پیداوار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یہ سب آج افغانستان کے سیاسی اور سماجی و اقتصادی ڈھانچے کی بنیادی خصوصیات بن چکی ہیں، اور اس صورتحال کی بڑی وجہ طالبان کے اپنے اقدامات ہیں۔

جیسا کہ آج بھی ذکر ہوا، طالبان کی خواتین اور بچیوں پر جاری پابندیاں اسلامی روایات اور مسلم معاشرے کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتیں، جس کی نشاندہی او آئی سی کے رکن ممالک بھی متعدد مواقع پر کر چکے ہیں۔

پاکستان انسانی حقوق، بالخصوص افغانستان میں خواتین اور بچیوں کے حقوق کے بارے میں بین الاقوامی برادری کے تحفظات سے مکمل اتفاق رکھتا ہے۔

جیسا کہ انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے بھی بتایا، افغانستان کی انسانی صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ 2025 کے ہیومینیٹیرین نیڈز اینڈ ریسپانس پلان میں بڑھتا ہوا مالیاتی خلا اس حمایت میں کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے جو ایک ایسی سیاسی قیادت کے لیے تھی جو اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

محترمہ صدر،

گزشتہ چار دہائیوں سے، پاکستان نے اپنی محدود صلاحیتوں اور ناکافی بین الاقوامی امداد کے باوجود لاکھوں افغان مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔

ہمیں بڑی تعداد میں غیر قانونی غیر ملکیوں، جن میں افغان بھی شامل ہیں اور جن کے پاس کوئی قانونی حیثیت یا دستاویزات نہیں تھیں، سے بھی نمٹنا پڑا جو پاکستان کے لیے سنگین سکیورٹی خطرہ بنے ہوئے تھے۔ یہ قیام کبھی غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کے لیے نہیں تھا۔

اب جبکہ افغانستان میں جنگ ختم ہو چکی ہے، ہماری توقع ہے کہ افغان شہری باوقار، مرحلہ وار اور منظم انداز میں اپنے وطن واپس لوٹیں گے۔

ہم اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کو ہر ممکن معاونت فراہم کرتے رہیں گے، لیکن بین الاقوامی برادری کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے اور اس بوجھ کو زیادہ منصفانہ طریقے سے بانٹنا چاہیے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے وعدے یا تو تاخیر کا شکار ہیں، پورے نہیں کیے گئے، یا بعض صورتوں میں واپس لے لیے گئے ہیں۔ افغانستان کی مشکلات کا ملبہ افغان واپسی کرنے والوں پر ڈالنا بھی زمینی حقائق کے مطابق نہیں۔

پاکستان نے ایک لبرل ویزا پالیسی بھی نافذ کی ہے، جس کے تحت افغان شہری تعلیم، علاج، کاروبار اور خاندانی روابط سمیت مختلف مقاصد کے لیے قانونی طور پر پاکستان کا سفر کر سکتے ہیں۔ صرف طبی بنیادوں پر ہی ستمبر 2023 سے اب تک ہم 5 لاکھ 36 ہزار سے زائد افغان شہریوں کو ویزے جاری کر چکے ہیں۔

پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ مسلسل رابطے اور مؤثر انگیجمنٹ کی حمایت کی ہے اور معمول پر لانے کے لیے روڈ میپ تجویز کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔

ہم یواین کی سربراہی میں جاری دوحہ عمل کے اگلے مرحلوں اور اس کے موزیک اپروچ کے عملی منصوبے کے منتظر ہیں، جو افغانستان کے کثیرالجہتی چیلنجز کو جامع انداز میں حل کرے، جیسا کہ آزادانہ جائزہ رپورٹ میں بھی تجویز کیا گیا ہے۔

محترمہ صدر،

پاکستان ایک پُرامن، مستحکم، باہم جڑا ہوا اور خوشحال افغانستان چاہتا ہے ایک ایسا افغانستان جو اپنے اندر بھی امن کا حامل ہو اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی۔

پاکستان افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی انگیجمنٹ کی بھی حمایت کرتا ہے، بشرطیکہ اس کے واضح مقاصد ہوں، باہمی اقدامات پر مبنی ہو، اور ایک قابلِ عمل و حقیقت پسندانہ روڈ میپ رکھتی ہو جو افغانستان میں دیرپا امن کا واحد مؤثر راستہ ہے۔

ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ دو طرفہ روابط کو ایسے ممالک اپنے منفی ایجنڈوں کے لیے استعمال نہیں کریں گے جو پاک-افغان سرحد اور وسیع تر خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم امید کرتے ہیں کہ طالبان ایک ایسا سازگار ماحول فراہم کریں گے جو مخلصانہ مکالمے کو فروغ دے، ہمارے جائز سکیورٹی خدشات کے لیے حساس ہو، متضاد اقدامات سے گریز کرے اور انکار کی ایسی حالت سے باہر نکلیں، جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔

پاکستان کے لیے افغانستان کی اہمیت خاص ہے۔ جغرافیائی طور پر قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے، لمبی سرحد کے علاوہ گہرے مذہبی و تاریخی روابط، ثقافتی تعلقات اور برادری کے بندھن بانٹنے والے، افغانستان میں امن و استحکام کی خواہش پاکستان سے زیادہ کسی ملک کی نہیں ہے۔

اور افغانستان میں دہائیوں کے تنازعے اور غیر مستحکم صورتحال کے نتائج سے سب سے زیادہ پاکستان نے ہی متاثر ہوا ہے۔

اس لیے پاکستان افغانیوں اور خطے کے بہترین مفاد میں ایک پُرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے کام جاری رکھے گا۔

میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

install suchtv android app on google app store