جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے موجودہ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہم پچھلی حکومت کے خلاف تحریک چلا سکتے ہیں تو اس حکومت کے خلاف کیوں نہیں؟ ملک میں آئین کو کھلونا بنا دیا گیا ہے اور طاقتور حلقوں کی مرضی عوامی خواہشات پر غالب ہے۔
مردان میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے ملکی سیاسی و معاشی صورتحال پر سخت تنقید کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے اور پاکستان وہ نہیں رہا جس کی عوام نے امیدیں لگائی تھیں۔ قوم نے اسلامی شناخت اور دینی آزادی کے لیے پاکستان حاصل کیا تھا، لیکن آج عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ترامیم عوام کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ طاقتور طبقات کے مفادات پورے کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔
27ویں ترمیم کو "جعلی اکثریت" کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ ارکانِ پارلیمنٹ کو خرید کر قانون سازی کی گئی۔ مولانا کے مطابق سی پیک بھی عملاً بند ہے اور حکومت ملک کی سمت درست کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اس موقع پر انہوں نے عالمی اور علاقائی حالات پر بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے ہاتھوں سے فلسطینیوں کا خون ٹپک رہا ہے جبکہ وزیراعظم شہباز شریف انہیں نوبل امن انعام دلوانے کی بات کر رہے ہیں، جو افسوسناک ہے۔
انہوں نے افغانستان اور پاکستان دونوں کو اپنے رویوں پر نظرثانی کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ مسلح گروہوں کو جنگ چھوڑنی چاہیے، کیونکہ لڑائی کسی مسئلے کا حل نہیں۔
مولانا فضل الرحمان نے واضح کیا کہ اگر حکومت پالیسیاں اسی طرح جاری رکھتی ہے تو جے یو آئی اس کے خلاف ملک گیر تحریک چلانے کے لیے تیار ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ کہا جاتا تھاکہ بانی پی ٹی آئی مغربی ایجنڈے پرکام کررہے تھے لیکن مغرب کے اصل ایجنڈے پر موجودہ حکومت عملدرآمد کر رہی ہے، ہماری افغان پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، 78 سال میں ہم افغانستان کو اپنا دوست نہیں بنا سکے۔