27ویں آئینی ترمیم: سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس اختیار محدود کرنے کی تجویز

مجوزہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے تحت پاکستان میں ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے فائل فوٹو مجوزہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے تحت پاکستان میں ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے

مجوزہ ستائیسویں آئینی ترمیم کے تحت پاکستان میں ایک نئی وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے، جو ملک کے آئینی معاملات، تنازعات اور آئین کی تشریح سے متعلق مقدمات کی حتمی اتھارٹی ہوگی۔ ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینے کا اختیار ختم کر دیا جائے گا، اور آئینی نوعیت کے تمام مقدمات اب نئی آئینی عدالت میں سنے جائیں گے۔

ذرائع کے مطابق، نئی عدالت کا سربراہ چیف جسٹس کہلائے گا، جس کی مدتِ ملازمت تین سال مقرر کی گئی ہے۔

عدالت میں تمام صوبوں سے برابر نمائندگی دی جائے گی، جبکہ ججز کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال مقرر ہوگی۔

ترمیم کے مطابق، اگر کوئی جج نئی تقرری یا تبادلے سے انکار کرے تو اسے ریٹائر تصور کیا جائے گا۔

مسودے کے مطابق، گزشتہ سال 26ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم آئینی بینچ کو اب آئینی عدالت کا درجہ دیا جا رہا ہے۔

یہ عدالت نہ صرف وفاق اور صوبوں کے درمیان تنازعات نمٹائے گی بلکہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق سے متعلق مقدمات بھی اسی کے دائرہ اختیار میں آئیں گے۔

مزید بتایا گیا ہے کہ آئینی عدالت کے قیام کے لیے آئین کی 40 شقوں میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔ ترمیم کے تحت صدرِ مملکت کو اختیار ہوگا کہ وہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر کسی ہائیکورٹ کے جج کو کسی دوسری ہائیکورٹ میں منتقل کر سکیں۔

تاہم، اگر کوئی جج اس تبادلے کو قبول نہ کرے تو اسے اپنے عہدے سے ریٹائرڈ تصور کیا جائے گا۔

یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ لاہور، اسلام آباد، کراچی اور پشاور ہائیکورٹس کے ججز کے درمیان تبادلے ممکن ہوں گے۔ ترمیم کے ایک اہم حصے میں آرٹیکل 189 میں تبدیلی کی گئی ہے، جس کے تحت آئینی عدالت کے فیصلے ملک کی تمام عدالتوں پر لازم ہوں گے۔

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم پاکستان کے عدالتی ڈھانچے میں ایک بڑی تبدیلی ہوگی، جس سے سپریم کورٹ کا کردار محدود جبکہ وفاقی آئینی عدالت آئین کی تشریح کا مرکزی ادارہ بن جائے گی۔

install suchtv android app on google app store