اسلام آباد کی مقامی عدالت نے تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، اور سینئر رہنما اسد عمر کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں خارج کردیں۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کے سینئر رہنما اسد عمرکے خلاف تھانہ ترنول میں درج مقدمے کی سماعت ہوئی، ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست پر جج طاہر عباس سپرا نے سماعت کی۔
شاہ محمود قریشی اپنےوکیل علی بخاری کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے، وکیل علی بخاری نے مؤقف اپنایا کہ یہ مقدمہ بدنیتی پر مبنی ہے کوئی حقیقت نہیں، وکیل علی بخاری کی جانب سے ایف آئی آر پڑھ کر سنائی گئی، انہوں نے کہا کہ الزام لگایا گیا کہ انہوں نے دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی، شاہ محمود قریشی جائے وقوعہ پر موجود نہیں تھے، کوئی ایسا ثبوت دیں جو یہ ثابت کرے کہ شاہ محمود قریشی نے کارکنان کو اکسایا۔
عدالت نے پراسیکوٹر سے استفسار کیا کہ بتائیں کہ ملزم کا 109 میں کیا کردار ہے، جس پر پراسیکوٹر زاہد آصف کی جانب سے دلائل شروع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا گیا کہ ایک ٹویٹ ہے شاہ محمود قریشی کا جس میں ان نے کہا نکلو پاکستان کی خاطر، شاہ محمود قریشی کیخلاف میٹرل موجود ہے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آئی او صاحب بتائیں کہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے خلاف کیا ثبوت ہے، پراسیکوٹر زاہد آصف نے کہا کہ اسد عمر کا اسلام آباد حلقہ ہے اور یہاں ان کے چاہنے والے ہیں اور ان کہ کہنے پر نکلے۔
اس دوران کیس میں شریک ملزم خان بہادر عدالت میں پیش ہوئے، پراسیکوٹر زاہد آصف کی جانب سے خان بہادر کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کی گئی۔
عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد شاہ محمود قریشی ضمانت کنفرمیشن سے متعلق فیصلہ محفوظ کرلیا۔
بعد میں اپنا فیصلہ جاری کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشنز جج طاہر عباس سپرا نے اسد عمر، اسد قیصر اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت کی درخواستیں خارج کردیں۔
ضمانت کی درخواستیں خارج ہوتے ہی رہنما تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر اور شاہ محمود قریشی کچہری سے جلدی میں روانہ ہوگئے۔
عدالت نے شریک ملزمان ناصر محمود، خان بہادر، خالد محمود، محمد امتیاز ، جمشید مغل، انور زیب اور خالد محمود کی ضمانت کی درخواستیں بھی خارج کردیں۔
درخواست خارج ہونے کے بعد پولیس نے پی ٹی آئی کے مقامی رہنما خان بہادر کو گرفتار کر لیا۔