فاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ صدرعدالتی اصلاحات بل سپریم کور ٹ نہیں بھیج سکتے، عدالت عظمیٰ کو پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت کا اختیار نہیں، سپریم کورٹ کے پاس اسٹرائیک ڈاؤن کا اختیارنہیں، عدالت ایسا کرے گی تو آئین سے تجاوز ہو گا۔
نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کے دوران انکا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے آئین کا تحفظ کرے، سپیکراسمبلی کو چیف جسٹس سے بات کرنی چاہیے، جسٹس عمر عطا بندیال سے تصور نہیں کیا جا سکتا وہ ضد کی بات کریں گے۔ ہم تو کہتے ہیں سپریم کورٹ پوری پارلیمنٹ کو بلا کر نااہل کر دے، اگر پارلیمنٹ نے انتخابات کے لیے پیسے دینے کا بل مسترد کر دیا تو فنڈز جاری نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ آئین اورقانون پارلیمنٹ نے بنانا ہے، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے پاس بل دوبارہ صدر کے پاس جائے گا، صدر نے 10 دن میں دستخط نہیں کئے تو 11 ویں دن وہ قانون بن جائے گا، جسٹس منصورعلی شاہ نے ثابت کیا ”ون مین شو“ نے ادارے کا بیڑہ غرق کیا۔
رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے اختیارات کم نہیں کیے، ججز کے اختلافی نوٹ نے پارلیمنٹ کو سوچ دی، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا پارلیمنٹ آنا اچھا فیصلہ تھا، آج تمام ججز کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے تھا، چیف جسٹس کو بھی آج پارلیمنٹ کے اجلاس میں آنا چاہیے تھا، چیف جسٹس کو دعوت دی تھی انہوں نے انکارنہیں کیا، جسٹس عمر عطاء بندیال انکار کرتے تو ہم ان کے پاس چلے جاتے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپیکر اسمبلی کو چیف جسٹس سے بات کرنی چاہیے، جسٹس عمر عطا بندیال سے تصور نہیں کیا جا سکتا وہ ضد کی بات کریں گے، سب نے چیف جسٹس سے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی، چیف جسٹس سےفل کورٹ اجلاس بلانے کا بھی کہا گیا، وزیراعظم نےاٹارنی جنرل سے کہا ہماری کوئی ضدنہیں، اٹارنی جنرل نےچیف جسٹس کوپیغام دیا ہو گا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ آئین کی وجہ سے آج عدلیہ اور پارلیمنٹ قائم ہے، سپریم کورٹ، دیگر اداروں میں بھی آئین کی گولڈن جوبلی تقریب ہونی چاہیے تھی، سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے آئین کا تحفظ کرے، چیف جسٹس کےآئین کی گولڈن جوبلی تقریب میں نہ آنے پر دکھ ہے، سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے آئین کا تحفظ کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہم تو کہتے ہیں سپریم کورٹ پوری پارلیمنٹ کو بلا کر نااہل کر دے، اگر پارلیمنٹ نے انتخابات کے لیے پیسے دینے کا بل مسترد کر دیا تہ یہ بل مسترد ہو گا، اگر عمران خان بیٹھ کر سیاستدانوں کی طرح بیٹھ کر بات کریں تو معاملات سلجھ سکتے ہیں، اگر عمران خان بیٹھ کر بات کرتے تو آگے پیچھے کر کے کچھ نہ کچھ ہو جاتا، اگر عمران خان نے یہی رویہ رکھا تو ہو سکتا ہے، 8 اکتوبر کو بھی انتخابات نہ ہوں ، اگر عمران خان کا رویہ مان لیا جائے تو کل کوئی بھی پارٹی اسمبلی تحلیل کر کے عام انتخابات کا مطالبہ کرے گی۔