کراچی سے لاہور آکر پسند کی شادی کرنے والی لڑکی کے کیس میں بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے، سندھ ہائیکورٹ نے لڑکی کو والدین کے ساتھ بھیجنے کی ہدایت کردی۔
سندھ ہائیکورٹ میں لڑکی کی حوالگی کیلئے والدین کی جانب سے درخواست کی سماعت میں مبینہ مغویہ کا شوہر ظہیراحمد بھی وکیل کے ہمراہ پیش ہوا۔ ظہیراحمد کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ لڑکی کی حوالگی کی درخواست قابل سماعت نہیں ہے۔
دُعا نے بیان دیا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ جس پر ظہیر کے وکیل نے کہا کہ شوہرکو بھی دعا سے ملاقات کی اجازت دی جائے۔ عدالت نے لڑکی کو والدین کےساتھ بھیجنےکی ہدایت کرتے ہوئے والدین کو اسے مکمل تحفظ فراہم کرنے کا حکم دیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ کیا گارنٹی دیں گےکہ بچی آپ کے ساتھ جائے گی تو محفوظ رہے گی کیونکہ اندرون سندھ ایسے واقعات ہوں تو لڑکی واپس آنے پر محفوظ نہیں رہتی، ہم آپ کو بچی دے رہے ہیں لیکن آپ پر بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
عدالت نے والدین کی جانب سے لڑکی کو باہر لے جانے کی استدعا مستردکرتے ہوئے لڑکی کے تحفظ کیلئے 10لاکھ روپے زرضمانت بھی جمع کرانے کا حکم بھی دیا۔ عدالت نے والدین کو چائلڈ پروٹیکشن افسر اور لیڈی پولیس افسر سے لڑکی کی ہفتہ وارملاقات کروانے کی ہدایت دیتے ہوئے چائلڈپروٹیکشن افسر کو جائزہ رپورٹ ماتحت عدالت میں جمع کرانےکاحکم بھی دیا۔
گزشتہ روز کی سماعت میں مبینہ مغویہ کے شوہر ظہیراحمد نے اہلیہ کی کسٹڈی مانگتے ہوئے کہا تھا کہ میں قانونی اور شرعی شوہر ہوں، شیلٹر ہوم سے کسٹڈی دی جائے ۔ اہلیہ نے تمام فورمز پر میرے حق میں بیانات دیے ہیں۔
ظہیراحمد کا کہنا تھا کہ مجھے اور میری اہلیہ کو جان کے خطرات لاحق ہیں آئی جی، محکمہ داخلہ کو سیکیورٹی فراہم کرنے کا حکم دیا جائے۔
اس پر عدالت نے سیکرٹری داخلہ، تفتیشی افسر، مدعی مقدمہ کے علاوہ ڈی جی سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی، آئی جی سندھ کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے آج جواب طلب کیا تھا۔