ایم کیوایم پاکستان نے بھی حکومت کا ساتھ چھوڑ دیا، اپوزیشن کی حمایت کا باضابطہ اعلان

ایم کیوایم فاہل فوٹو ایم کیوایم

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان نے متحدہ اپوزیشن کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے بعد اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں حکومت سے باقاعدہ علیحدگی کا اعلان کردیا۔

متحدہ اپوزیشن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ اس معاہدے کی کوئی شق ہمارے سیاسی فائدے کے لیے نہیں بلکہ ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپنے سیاسی مفادات پر ہم نے پاکستان کے مفادات کو ترجیح دی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کہنا تھا کہ یہ ایک تاریخی موقع ہے، آج کے دن ہم ایسی سیاست کا آغاز کرنا چاہتے ہیں جہاں کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہ بنایا جائے، آج کامیابی سے زیادہ امتحان کا دن ہے، چاہتے ہیں سیاسی اختلافات ختم کرکے آگے بڑھیں، آج قوم کو ایک امتحان کا سامنا ہے جس سے گزرنا ہے۔

اس موقع پر بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم دن ہے، شاید دہائیوں میں ایسا موقع آیا جب پوری قومی سیاسی قیادت ایک پلیٹ فارم پر قومی جرگہ کی صورت میں موجود ہے۔

شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما اور پاکستان پیپلز پارٹی کے آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے ملاقات کی اور 20 منٹ میں معاملات طے ہوگئے، یہ حقیقی معاہدہ ہے، یہ کوئی جعلی خط نہیں ہے۔

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم استعفیٰ دے کر نئی روایات قائم کرسکتے ہیں۔

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان نے کراچی اور پاکستان کی ترقی کے لیے اچھا فیصلہ کیا، کراچی اور پاکستان کی ترقی کے لیے اب مل کر محنت کرنی ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان کے عوام مزید خشخبریاں سنیں گے، ہم نئے سفر کا آغاز کرنے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کا تحریک عدم اعتماد سے کوئی تعلق نہیں، دونوں پارٹیوں کو ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک ساتھ چلنا ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اپنی اکثریت کھو چکے ہیں، لہذا عمران خان استعفیٰ دیں۔

چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا اگر وزیراعظم استعفیٰ نہیں دیتے تو آئیں اسمبلی سیشن میں تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ میں اپنی اکثریت ثابت کریں۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ حکومت اپنی اکثریت کھو چکی، بہت جلد اپوزیشن لیڈر شہباز شریف ملک کے وزیراعظم منتخب ہوں گے۔

متحدہ اپوزیشن کی ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے موقع پر بات چیت کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ اور جے یو آئی (ف) کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین سال قبل اس ڈرامے کا آغاز ہوا تھا اب اس کا خاتمہ قریب ہے، آج اس سیاسی ڈرامے کا ڈراپ سین ہوگیا۔

سربراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ ساڑھے تین سال قبل آنے والی نحوست کے خاتمے اور اس سے نجات دلانے میں کارکنوں سے اہم کردار ادا کیا، ان کی بے توقیری کی سیاست نے ملک کی اخلاقی، سماجی بنادیں ہلادیں، آج اس جھوٹ پر مبنی سیاست کا خاتمہ ہو گیا۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمیں قومی اسمبلی کے 175 اراکین کی حمایت حاصل ہے، وزیر اعظم عمران کان مستعفی ہوں۔

سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ جس اتحاد اور یکجہتی کا آج قومی قیادت کی جانب سے اظہار کیا گیا اسی جذبے کی ملکی ترقی اور خوشحالی کی ضرورت ہے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمیں قومی اسمبلی کے 175 اراکین کی حمایت حاصل ہے، وزیر اعظم عمران خان مستعفی ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈراؤ مت، تمہیں کسی نے کوئی دھمکی نہیں دی، تمہاری حیثیت کیا ہے جو تمہیں کوئی دھمکی دے یا تمہارے خلاف سازش کرے۔

سربراہ پی ڈی ایم نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم ہو کیا چیز، ایسی باتیں کر کے تم اپنی اہمیت بڑھانا چاہتے ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے خلاف عالمی سازش ہورہی ہے، سازش ان کے خلاف نہیں، بلکہ ان کو اقتدار میں لانا ملک کے خلاف سازش تھی، اس عالمی سازش کے تحت ہی ماورائے قانون اقدامات کیے۔

مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ جس اتحاد اور یکجہتی کا آج قومی قیادت کی جانب سے اظہار کیا گیا اسی جذبے کی ملکی ترقی اور خوشحالی کےلیے ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم کے معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہیں، معاہدے کے اثرات اور ثمرات پاکستان کے عوام تک پہنچیں گے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی ) کے سربراہ اختر مینگل نے بھی وزیراعظم عمران خان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم عمران خان کی پرانے سیاسی اتحادی ہیں، ہم سیاسی بات کریں گے، عمران خان قومی اسمبلی میں اکثریت کھو چکے، استعفیٰ دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہ نیا پاکستان چاہیے، نہ پرانا پاکستان چاہیے، ہمیں مختلف پاکستان چاہیے جہاں ہمیں جینے کے حقوق حاصل ہوں۔

متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان طے ہونے والے معاہدے پر باضابطہ دستخط ہوگئے، چارٹر آف رائٹس معاہدے پر شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری، خالد مقبول صدیقی، مولانا فضل الرحمٰن، سردار اختر مینگل، خالد مگسی نے دستخط کیے۔

قبل ازیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم پی) کی رابطہ کمیٹی نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان گزشتہ رات ہونے والے معاہدے کی توثیق کردی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کی رہنما نسرین جلیل نے کراچی میں پارٹی کے مرکز کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے اس پیش رفت کی تصدیق کی۔

نسرین جلیل کا کہنا تھا کہ معاہدے کی تفصیلات شام 4 بجے پریس کانفرنس میں سامنے آئیں گی۔

یہ بھی پڑھیں:اپوزیشن یا حکومت، ایم کیو ایم پاکستان کے گیم چینجر فیصلے کا اعلان آج ہوگا

واضح رہے کہ گزشتہ رات گئے پارٹی نے اپوزیشن لیڈرز کے ساتھ ملاقات کی تھی جس نے دارالحکومت میں کافی ہلچل مچادی تھی۔

ابتدائی طور پر خواجہ آصف، شیری رحمٰن، نوید قمر، ایاز صادق، اختر مینگل، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر پر مشتمل اپوزیشن کا وفد آدھی رات سے کچھ پہلے پارلیمنٹ لاجز پہنچا تھا۔

انہوں نے ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی اور دیگر رہنماؤں سے بات چیت کی تھی۔

ملاقات کے دران مشترکہ اپوزیشن نے کوشش کی کہ ایم کیو ایم فوری طور پر کسی فیصلے کا اعلان کردے لیکن ایم کیو ایم پاکستان نے اتنی رات گئے کوئی حتمی بیان دینے سے گریز کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ اگلے دن اپنے فیصلے کا اعلان کرے گی۔

ایم کیو ایم پی کے ترجمان نے کہا تھا کہ معاہدے کے مسودے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، پارٹی اپنے فیصلے کا اعلان اس وقت ہی کرے گی جب اس کی توثیق رابطہ کمیٹی سے ہو جائے گی۔

ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے ایک ٹوئٹ میں اعلان کیا تھا کہ متحدہ اپوزیشن اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے درمیان معاہدہ نے حتمی شکل اختیار کر لی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سی ای سی، ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی مجوزہ معاہدے کی توثیق کے بعد اس کی تفصیلات سے کل شام 4 بجے باضابطہ میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔

قبل ازیں خواجہ آصف، شیری رحمٰن، نوید قمر، ایاز صادق، اختر مینگل، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور دیگر پر مشتمل اپوزیشن کا وفد آدھی رات سے کچھ پہلے پارلیمنٹ لاجز پہنچا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:ایم کیو ایم سندھ حکومت میں اتحادی بن سکتی ہے، سعید غنی

بعد ازاں حزب اختلاف کے مرکزی رہنما آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول، مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف بھی رات 2 بجے کے قریب وہاں پہنچے تھے تاکہ حکومتی اتحادی کو رخ بدلنے پر آمادہ کیا جا سکے۔

اس بات کی تصدیق پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی کی تھی۔

اپنے ٹوئٹر پار جاری اپنے ایک بیان میں اہوں نے کہا تھا کہ متحدہ اپوزیشن اور ایم کیو ایم کے درمیان معاہدہ ہو گیا، رابطہ کمیٹی ایم کیو ایم اور پی پی پی کے سی ای سی معاہدے کی توثیق کریں گے، اس کے بعد ہم کل پریس کانفرنس میں میڈیا کے ساتھ تفصیلات شیئر کریں گے، پاکستان کو مبارک ہو۔

رات بھر ٹی وی چینلز پر اجلاس کے ممکنہ نتائج کی خبریں چلتی رہے تھیں، متعدد آؤٹ لیٹس نے رپورٹ کیا تھا کہ اپوزیشن کے ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ ایم کیو ایم-پی نے ان کے ساتھ شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کی ہے تو کچھ چینلز نے خالد مقبول صدیقی اور وسیم اختر کے حوالے سے کہا کہ کچھ بھی طے نہیں ہوا تھا۔

اجلاس سے باخبر ذرائع نے بتایا تھا کہ اجلاس میں دیگر اپوزیشن جماعتوں کی سینئر قیادت کی موجودگی میں سندھ کے انتظامی اور بلدیاتی امور کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور ایم کیو ایم-پی کے درمیان مستقبل کے معاہدے سے متعلق بعض شقوں پر غور کیا گیا۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ معاہدہ صرف پیپلزپارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ پوری اپوزیشن کے ساتھ ہونا ہے اور اگر رابطہ کمیٹی نے منظور کرلیا تو مولانا فضل الرحمٰن اور شہباز شریف معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔

خیال رہے کہ اگر ایم کیو ایم پی اپنا وزن اپوزیشن کے پلڑے میں ڈالتی ہے تو یہ ان کے حق میں ترازو کو بڑی حد تک جھکا دے گا۔

کچھ اندازوں کے مطابق حکمران اتحاد کے پاس ارکان کی تعداد 171 ہے کیونکہ جماعت اسلامی کے واحد قانون ساز نے عدم اعتماد کے ووٹ میں غیر جانبدار رہنے کا انتخاب کیا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان عوامی پارٹی کے اپنی صفوں میں شامل ہونے کے بعد اپوزیشن کے پاس 169 ارکان موجود ہیں۔ اگر ایم کیو ایم پی کے 7 اراکین اپوزیشن کی جانب بڑھ جائیں تو یہ غیر یقینی توازن آسانی سے جھک سکتا ہے۔

install suchtv android app on google app store