عراق کا شمار کبھی خطے کے خوشحال ممالک میں ہوتا تھا مگر امریکا نے اسے ایسا بربادکیا ہے کہ عام عراقیوں کے لئے زندگی ایک مسلسل عذاب بن کر رہ گئی ہے۔
جہاں اور بہت سے مسائل نے اس ملک کو گھیر رکھا ہے وہیں ایک مسئلہ لاکھوں کی تعداد میں بن بیاہی بیٹھی لڑکیاں ہیں جن کا ہاتھ تھامنے والا کوئی نہیں۔ مردوں کی بڑی تعداد خانہ جنگی کی نظر ہو گئی اور جو بچ گئے ہیں ان کے پاس زندہ رہنے کے اسباب نہیں، وہ گھر کیسے بسائیں گے؟
خواتین کا کہنا تھا کہ ”ہمارے پاس کوئی ملازمت نہیں ہے اور شادی بھی نہیں ہورہی ہے۔ شب و روز گھر کے کاموں میں گزرتے ہیں۔
ہم خود کو اپنے والدین کے گھر میں قید محسوس کرتے ہیں۔ شاید ہمارےپاس ابھی بھی خاوند تلاش کرنے کی کچھ امید باقی ہے۔
موصل شہر کبھی عراق میں تہذیب و ثقافت کا مرکز قرار دیا جاتا تھا۔
کبھی یہاں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کا رواج عام تھا اور اب صورتحال یہ ہے کہ 30سال یا اس سے زائد عمر کی لڑکیاں بھی بن بیاہی بیٹھی ہیں۔ شہر کا اکثر حصہ گزشتہ سالوں کی جنگ کے دوران تباہ و برباد ہوچکا ہے۔
نوجوانوں کے پاس نوکریاں نہیں ہیں اور رہنے کو مکان نہیں ہیں۔ ایسی صورت میں کسی بھی نوجوان لڑکی کے لئے موزوں رشتہ ملنا ناممکنات میں شامل ہوچکا ہے۔
بے روزگار لڑکے کوشش کرتے ہیں کہ انہیں پڑھی لکھی اور برسرروزگار بیوی مل جائے لیکن جہاں مردوں کے لئے نوکریاں نہیں ہیں وہاں خواتین کو روزگار کہاں سے ملے گا۔
نتیجہ یہ ہے کہ بڑی تعداد میں لڑکیاں شادی کا خواب دل میں لئے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبورہو چکی ہیں۔