کورونا وائرس یا بائیولوجیکل وار

  • اپ ڈیٹ:
  • زمرہ کالم / بلاگ
عبدالحسین آزاد عبدالحسین آزاد

دنیا کو موجودہ جس خطرے کا سامنا ہے وہ ہے کورونا وائرس کا خطرہ،اگرچہ دنیا جانتی ہے کہ کرونا سے اموات کی شرح بہت ہی کم ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

دنیا بھر میں جاری کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے سروے کے مطابق شرح اموات دو فیصد ہے،ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اعداد وشمار کے مطابق بھی کورونا وائرس سے شرح اموات دو فیصد ہے مگریہ بڑی تیزی سے انسانوں میں منتقل ہورہا ہے اور ہرنئے روز کئی سوا فراد کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے جوکہ قابل تشویش بات ہے اور اسے یوں لگتا ہے شرح اموات میں اضافہ بھی ممکن ہے،دنیا میں کرونا کا خوف جس خطرناک سطح کو چھورہا ہے وہ کرونا سے زیادہ خطرناک ہے،لوگ کرونا کے خوف سے نفسیاتی طور پر بیمارہوچکے ہیں۔خوف اور ڈر کے سایے تلے معمولات زندگی کو بھی ترک کرچکے ہیں،کرونا وائر س چین کے شہر ووہان میں آیا اور وہی دریافت ہوا۔کرونا کے نام سے وائرس آج سے پہلے بھی دریافت کیے جاچکے ہیں لیکن یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور خطرناک ترین وائرس ہے جو تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، پہلا وائر س ہے جس نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے،جس کو سائنسدانوں نے Corona Virasus یا COVID 19کا نام دیا ہے۔جس سے صحت کے شعبے میں ہر طرف ایمرجنسی کا سما ں ہے تو کرونا سے متاثرہ ممالک کی معیشت بھی روبہ زوال ہے،چین کی ابھرتی ہوئی معیشت کو یہ دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے اور چین کو کئی سو کھرب ڈالر خسارے کا سامنا ہے اسی طرح دنیا کے کئی ممالک کی اسٹاک ایکس چینج میں بھی مندی کا رجحان ہے۔چین میں کرونا وائرس اور اس کے پھیلاؤ اور اس کی ویکسین بنانے کے لیے ریسرچ کا عمل جاری ہے جہاں 24گھنٹے چینی سائنسدان لگے ہوئے ہیں لیکن ابھی تک اس کا کوئی خاطر خواہ حل پیش کرنے میں ناکام ہوئے ہیں،یاد رہے کرونا سے سب سے زیادہ متاثر چین ہوا ہے،اور وہی سے یہ وائرس دنیا کے لگ بھگ 30 سے زیادہ ممالک میں پھیل چکا ہے۔دنیا کے کئی ممالک کا چین سے زمینی اور فضائی رابطے منقطع ہیں،اور سفارتی وتجارتی سرگرمیاں بھی ماند پڑگئی ہیں،اگر سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو چین معاشی طور پر نہ صرف دیوالیہ ہونے کے قریب ہے بلکہ چین کی آبادی کو اشیائے ضروریہ کے قحط کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔کرونا اس لیے خطرنا ک نہیں کہ وہ پھیل رہا ہے بلکہ اس لیے خطرناک ہے یہ قوموں، ملکوں کو سفارتی،خارجی،تجارتی،سفری،صنعتی اور لین دین کے ہر معاملے میں آئسولیٹ کرتا ہے،اور آئی سولیشن کا یہ عمل صرف بیرونی وخارجی تعلقات تک نہیں بلکہ ڈومیسٹیک بھی ہے۔ایسی کیفیت ہے کہ کوئی مر رہاہے تو اس کو سہارا دینے کے لیے بھی کوئی تیار نہیں کیونکہ وائرس کے پھیلنے کا خوف ہے۔یہی وجہ ہے اب چین سمیت کئی ممالک اس کو بائیو لوجیکل وار کا نام دیتے ہیں اور الزامات اور نگلیاں بھی اٹھنے لگی ہیں۔بائیو لوجیکل وار کیا ہے؟ یہ کیوں کھیلا جاتا ہے اور کون سے طاقتیں یہ کھیل کھیلتی ہیں؟،اس کے پیچھے کیا مقاصد ہوتے ہیں اور کیا اس کی روک تھام ممکن ہے؟کیا کرونا وائرس سے بائیولوجیکل وارکا آغازہوررہاہے؟؟ ان سوالات کے جوابات ہم تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات واضح ہوجائے کہ بائیولوجیکل وار ہماری بساط سے باہر ہے اور نہ ہی ہم یہ افورڈ کرسکتے ہیں۔ہم جیسے غریب ملکوں کا اس سے دورد ور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں،کیونکہ ہمیں بنیادی صحت کی سہولیات تک میسر نہیں۔مناسب اسپتال سے محروم لوگ بائیو وارکی تدابیر کیسے کرسکتے ہیں۔ترقی پذیر ممالک ففتھ جنریشن وار کا شکار ہیں تو وہ دنیا کو کیسے بائیولوجیکل وار کا شکار کرسکتے ہیں،ترقی پذیر ممالک خاص کر نچلی سطح کے ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان،اس کا شکار ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور متاثر ہونا ہم افورڈ کرسکتے ہیں اور اگر نا بھی کریں تو سہنا پڑتا ہے،امیروں کی لڑائی میں اکثر غریب پس جاتے ہیں،ڈاکٹر ز اور وکلا ہنگامہ کریں تو عدالتوں اور اسپتالوں میں اس کے نتائج صرف غریب کو ہی بھگتنا پڑتا ہے،اسی طرح سپر پاورز کی اس جنگ میں بلا ضرورت ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک بھی شکار ہوجاتے ہیں۔بائیولوجیکل وار جنگ کی ایک ایسی قسم ہے جس میں براہ راست کوئی طاقت دوسری طاقت سے نبرد آزما نہیں ہوگی اور نہ ہی اس جنگ کے لیے ہتھیاروں کا استعمال کیا جائے گا اور نہ ہی کسی ملک کی سرحد میں فوجیں اتارنا پڑتی ہیں بلکہ یہ ایک خاموش جنگ ہے جو خاموشی سے لڑی جاتی ہے اور پھر بیٹھ کر تماشا دیکھا جاتا ہے،توسیع پسندانہ سوچ کی حامل قوتیں اس جنگ کو مسلط کرتی ہیں،بائیو لوجیکل وار نیو کلیئر وار سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے،نیو کلیئر وار میں مد مقابل قوتیں کمزور ہی صیح کسی نہ کسی طرح اپنا دفاع کرتی ہیں لیکن بائیولوجیکل وار یا حیاتیاتی جنگ میں قومیں مٹ جاتی ہیں،معیشت تباہ ہوجاتی ہے،ترقی کی دوڑ میں کئی سو سال پیچھے چلی جاتی ہیں یعنی انسانی زوال کی جنگ ہے جو انسانوں کو ہرطرح سے مفلوج بنا کر رکھ دیتی ہے۔اس کی زد میں آنے والے ممالک خودسمیت پوری دنیا سے کٹ کر رہ جاتے ہیں اس کی واضح مثال چین میں آپ کو دیکھنے کو ملتی ہے۔جو اس وقت پوری دنیا سمیت اپنے ہی کئی شہروں سے آمد ورفت منقطع کرچکا ہے،اس سے پیداواری ساخت بری طرح متاثر ہوتی ہے،تو دوسری طرف اس کے سد باب کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کے لیے ایک خطیر رقم بھی مختص کیا جاتا ہے اور خدمات بھی سر انجام دی جاتی ہیں،جس کی وجہ سے وہ سرمائیہ اور خدمات جو ملکی ترقی پر لگائے جانے والے تھے لوگوں کی صحت پر لگائے جاتے ہیں اور ملک یوں ترقی کی پٹڑی سے اتر جاتا ہے۔ بائیولوجیکل وار میں ایسے وائرس لیبارٹریز میں تیار کیے جاتے ہیں،جن پر کئی سالوں تک کام کیا جاتا ہے اور ان کی منتقلی کے لیے بھی طویل رسیرچ پر مبنی کام کیاجاتا ہے پھر کہیں جاکر اس کا عمل ممکن دیکھائی دیتا ہے۔طبئی عمل کے ذریعے اس وائرس کو ٹارگٹ ملک کے کسی فرد یا شہرو قوم میں منتقل کیا جاتا ہے،اور اس کی تیاری کے دوران اس ملک کی ساخت،آب وہوا،جغرافیہ کا بھی قریب سے مشاہدہ کیا جاتا ہے وہاں پر پائے جانے والے انسانوں کی جنیز کا بھی گہرا مشاہدہ کیا جاتا ہے اور اس کے پھیلاو کی رفتار کو بھی جانچا جاتا ہے۔ایک طویل مرحلے کے بعد اس کو انجیکٹ کیا جاتا ہے۔کروناوائرس کے حوالے سے امریکہ میں 1995میں بننے والی فلم OUT BREAK بھی اسی کا عکاس ہے،فلم میں بھی دیکھایا گیا ہے کہ وائرس چین سے پھیلتا ہے اور اس کی وجہ جانور ہیں لیکن فلم کے اصل حقائق جب سامنے آتے ہیں تو وائرس لیبارٹری میں تیار کیا جاتا ہے اور انجیکٹ کیا جاتا ہے،فلم OUT BREAK اس لیے زیر بحث ہے کہ اس میں کرونا وائرس کی نشاندہی بہت پہلے ہی چین میں کی گئی تھی جبکہ فلم امریکہ میں بنی ہے۔اس سے سازش کا حصہ قراردیا جاتا ہے۔بائیو لوجیکل ہتھیار بنانے والے ممالک میں اسرائیل، امریکہ،روس،فرانس،جرمنی اور چائنہ سر فہرست ہیں،امریکہ اور اسرائیل کے بائیولوجیکل ہتھیاروں کا استعمال سعودی عرب یمن میں آزادانہ طور پر کرچکا ہے اور اس کی نشاندہی اقوام متحدہ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن بھی کرچکی ہے،پھرا مریکہ نے شام میں ان ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا اور الزام بشار الاسد پر لگایا تھا جس کے حقائق بعد میں منظر عام پر آگئے،چائنہ کے جس شہر ووہان سے یہ وائرس پھیلا ہے وہاں پر بائیولوجیکل ہتھیاروں کا مرکزی ریسرچ سنڑہے جہاں پر چائنہ کے ہزاروں سائنسدان حیاتیاتی ہتھیار اوروائرس بنانے میں مصروف ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ وائرس پر کاتیارکیا جائے اور ویکسین بھی ساتھ نہ بنائی جائی،جن طاقتوں نے اس کو پھیلایا ہے اب وہی اس کے سد باب کے لیے مہنگے ویکسین بھی سامنے لے آئیں گی اور یوں اپنی تجارتی فوائد بھی پوری دنیا سے اٹھائیں گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کا سدباب کب تک کیاجائے گا،کیونکہ اب اس وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیاہے۔چائنہ اس بات کی کھوج میں بھی لگا ہوا ہے کہ وائرس کیسے پھیلا کہیں اس میں حریفوں کا ہاتھ تو نہیں یا ان کی اپنی کوئی غلطی جس سے وائرس پھیل گیا ہو،حقائق منظر عام پر آنے میں کافی وقت لگے گا اور اس وقت تک اچھی خاصی قیمت بھی چکانا پڑیگی۔اگر بات کی جائے ملک ِخستہ حال پاکستان کی تو یہاں حالات ابترہیں۔ایک طرف ملک معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے تو دوسری طرف آئیے دن کوئی نیا بحران جنم لیتا ہے۔کرونا سے روک تھام تو دور کی بات خبریں سنتے ہی ماسک کو ذخیرہ کیاگیا ہے،10روپے کا ماسک 70روپے میں مل رہا ہے،ایسے میں کسی وائرس کا اثر ہویا نہ ہو ہم کسی نہ کسی دن ضرور عذاب الٰہی کا شکار ہوجائیں گے کیونکہ اخلاقی زوال معاشرے پر سرائیت کرچکا ہے۔اسکولز وکالجز و جامعات بند کی جاچکی ہیں جبکہ صرف پانچ کیس کا بتا یا جاررہا ہے،چائنہ سے رابطے جاری ہیں،تفتان میں زائرین کو تنگ ضرورکیا جاتا ہے،یہ وائرس کم نفرت پر مبنی وائرس زیادہ ہے،مجھے تو اس بات کا ڈر ہے کہ اب ہمیں پولیو کی طرح اس کیس کو بھی سامنا کرنا نہ پڑے۔ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ ہم کرونا سے ڈرنا چھوڑدیں کرونا ہمار اکچھ نہیں بگاڑ سکتا،ہمیں اس وقت خوف خدا کا خوف اور اپنے کردار پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔

install suchtv android app on google app store