~ روداد ٹریل 5 اسلام آباد ~

ٹریل 5 اسلام آباد ٹریل 5 اسلام آباد

زندگی کی مصروفیات سے دور آج جانا ہے ہمیں. جہاں سکون ہو گا, صحت افزا سرگرمی, اور اپنوں کے ساتھ بہترین وقت کا استعمال بھی.

پچھلے ہفتے اپنی نند دیور اور شوہر کے ساتھ پروگرام بنایا کے اس ہفتے جب وہ چھٹی پر آئیں گے تو ہم ہائیکنگ پر چلیں گے.

سو وہ دن بھی آگیا پروگرام تو بنا تھا کہ فجر کے بعد جائیں گے مگر یہ سستیاں, اور ہم. الارم بند کر کے پھر سو گئے اور جب آنکھ کھلی, تو بارش ہو رہی اور ہمیں ایک اچھا بہانا مل گیا. سو ہم نے کہا پروگرام ملتوی کیا جاتا ہے. مگر سہ پہر کو جب شاندار موسم, ٹھنڈی ہوا اور بادلوں کی چھت نے اٹھکیلیاں لیں, تو ہم نے ٹریل 5 سر کرنے کی ٹھان ہی لی.

جانا تو چار لوگوں نے تھا پر ہم تین چلے کیونکہ میاں کو کام پہ جانا تھا.

بہت پرجوش انداز میں, سرخی پوڈر کے ساتھ, بھرپور تیاری سے ہم نکلے, عبداللہ (میرا بیٹا) کو ہم نے اسکی نانی کے گھر چھوڑا اور میاں نے ہمیں ٹریل پہ. موبائل کا کیمرا بھی تیار کر لیا, کہ ویڈیو اور تصویریں تو لازمی ہیں.

جوں جوں ہم ٹریل پہ چلنے لگے ہماری سانسوں کی رفتار بھی بڑھنے لگی اور پاکستان میں پہلی دفع میں نے لوگوں کو بورڈ پہ لکھی ہدایات پر عمل کرتے دیکھا یعنی کے کوڑا کرکٹ نہ پھینکیں اور اچھنبے کی بات یہ, کہ پورے سفر میں صرف ایک خالی جوس کا ڈبہ ملا.

دوران سفر جب ہم اوپر کی طرف بڑھ رہے تھے تو کچھ بچوں کو بھی دیکھا جو واپس آ رہے تھے اور میں انکے ماں باپ کو داد دیئے بنا نہ رہ سکی, کہ اپنے بچوں کو یہ صحت افزا سرگرمی سے روشناس کروا رہے ہیں. اور دل میں یہ بھی ٹھانی, کہ میں بھی, اپنے بچوں کو اس نقش پہ چلاؤں گی.

راستہ کافی ناہموار تھا پسینے میں شرابور پھولی سانسوں کے ساتھ ہم چڑھائی چڑھنے لگے اور حالت کچھ یوں تھی کی دل کی دھڑکن دونوں کانوں میں ڈھول بجانے لگی. میرا دیور تو بہت آگے نکل گیا تھا پر میں اور انعم پیچھے, آہستہ آہستہ چیونٹی کی رفتار سے, چڑھ رہے تھے. اور اس میں بھی انعم مجھ سے آگے تھی. اور میری وجہ سے تھوڑا آگے جاکہ رک جاتی کہ ساتھ ہو لوں.

بد قسمتی سے ہم پہلے ہی آور ویٹ تھے اور پھر بچے کے بعد مزید ہو گئے شاید یہی وجہ تھی جب ہم کٹھن چڑھائی چڑھنے لگے, تو مجھے یوں لگا کہ اب سانس واپس نہیں آئے گا. سوچا کہ یہیں سے واپس ہو چلتے ہیں لیکن پھر ہمت باندھی, مدد خدا مانگی, اور دل میں سوچا یہ تو ہمارے تمام انبیاء کی سنت ہے حضرت آدم سے لے کر نبیِ آخر الزمان تک سبھی عبادت کے لیئے کوئی پہاڑ کی چوٹی ڈھونڈتے تھے اور اللہ سے رازونیاز کرتے تھے. اب دل میں استغفار کا ورد کرتی, جگہ جگہ رکتی سانسوں کو بحال کرتی, آگے بڑھنے لگی. اور ہر واپس آتے ہوئے بندے کو روک کے پوچھتی, کہ آخر چشمہ اور کتنا رہتا ہے. یہ وہ وقت تھا جب میں اپنے حواس میں نہ تھی اور مجھے خود بھی معلوم نہ تھا کہ میں آخر خود کلامی میں کہہ کیا رہی ہوں.

خیر خدا خدا کر کہ جب کانوں نے پانی کے جھرنے کی آواز سنی تو سانس خوشی سے بحال ہوئی. چشمے تک جاتے ہوئے کچھ لوگ نیچے آرہے تھے میرا بی پی بھی لو ہوچکا تھا ان سے پوچھا کچھ کھانے کو ہے اور خدا کی قدرت دیکھیئے وہ مجھے کہنے لگے اگر آپ کے پاس ہے تو دے دیں خدا کی قسم بھوک سے مر رہے ہیں.

بوہڑی کے چشمے پر پہنچ کر سب سے پہلے ٹھنڈے پانی سے منہ دھویا اور پھر ساتھ میں نماز کے لیے بچھی چٹائیوں پر پاؤں پھیلا کر بیٹھ گئی. انعم مجھے بار بار کہنے لگی کہ پاؤں سمیٹو اتنے سارے لوگ ہیں مگر میرے لیے یہونہی سستانا جنت تھی.

اچانک سے مجھے یاد آیا کہ عبداللہ کے لیے چاکلیٹ میں نے بیگ میں رکھی تھی اور جب پرس میں ہاتھ ڈالا تو چھلی بھی نکل آئی. سو خوب پیٹ پوجا کی.
اور پھر منظر کی خوبصورتی کو آنکھوں میں بساتے ہوئے, فطرت کا رنگ, روح میں اتارنے لگی.
پانی کی جلترنگ, ساتھ میں پرندوں کی چہچاہٹ اور سبزے کی آفرینی نے ساری تھکن اپنے اندر سمو لی. ایک پتھر سے نکلتا پانی اور قدرت کی انتہا کو پہنچتی خوبصورتی, دل پہ پڑی گرد اور جابجا پڑے جالے سب اتار کر لے گئی.
تقریباً 4 بجے سہ پہر, چشمے سے واپسی کا سفر شروع کیا اور پھر سے اوپر جاتے ہانپتے لوگوں کو دیکھتی اور تھوڑی دیر پہلے کی اپنی حالت یاد آجاتی, تو بے اختیار چہرے پہ مسکراہٹ بکھر جاتی. نیچے اترتے اترتے معروف صحافی صابر شاکر سے بھی ملاقات ہو گئی جو ہوا کی رفتار سے چلے جا رہے تھے انکی رفتار, اس بات کی گواہی تھی کہ وہ اکثر و بیشتر آتے رہتے ہیں. انعم اور حسن نے سیلفی بھی لی.
اور یوں ایک خوبصورت دن اختتام پذیر ہوا. اس عہد کیساتھ کہ اگلی دفعہ چشمہ سے آگے, آخری پڑاؤ یعنی پیر سوہاوہ تک جائیں گے. انشاءاللہ

install suchtv android app on google app store