پبلک ٹرانسپورٹ اور سندھ حکومت کے دعوے

پبلک ٹرانسپورٹ اور سندھ حکومت کے دعوے فائل فوٹو پبلک ٹرانسپورٹ اور سندھ حکومت کے دعوے

پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے کراچی وہ بدنصیب شہر ہے جہاں آبادی کے تناسب سے آمد و رفت کے لئے شہریوں کو دستیاب سہولت نہ ہونے کے برابر ہے، سال دوہزار بائیس دوران بھی شہر قائد میں کے پبلک ٹرانسپورٹ کی صورتحال حال سندھ سرکارکے ڈھونگ کے باوجود ابتر رہی ہے۔ شہر قائد کی شاہراہوں پرڈورنے والی کئی بسیں بند ہوگئی۔ جسکی وجہ سے شہریوں کو شدیدمشکلات کاسامنا ہے۔

خستہ حال کراچی کی دیکھ بال کے لیے دعوں سے نکل کر کچھ کرنے کی سندھ حکومت کو توفیق ہی نہیں ہوئی۔ شاہراہوں پر رنگ برنگی بسیں ریڈ بس، اورنج بس اور الیکٹرک بسیں چلتی ہوئی نظر آئیں تاہم تین کروڑ کی آبادی صوبائی حکومت سے آس لگائے بیٹھی ہے کہ یہ حکومت کب ہوش کے ناخن لے گی۔ سندھ ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ کی دستاویزات کے مطابق کراچی میں بڑی بسوں کے مجموعی روٹس 60 ہیں جن میں 44روٹس بند ہوچکے ہیں اور صرف 16فعال ہیں، منی بسوں کے مجموعی روٹس 234ہیں جن میں 192 بند ہوچکے ہیں اور صرف 42 پر منی بسیں چل رہی ہیں، کوچز کے 20روٹس آپریشنل ہیں اور 50روٹس بند ہوچکے۔

بڑی بسوں کے بند ہونے والے معروف روٹس میں روٹ نمبر8، 8A،1C، 5، 5D، 5E، 11A، 1F، 72، 72 A، 5A، 5B،4Jشامل ہیں، منی بسوں کے بند ہونے والے معروف میں روٹس A، A1، A2، B، B1، C، C2، D، D2، F3، F4، G، G1، M، M3، N2، N3، P2، P6، S، S1، U2، U3 شامل ہیں، کوچز میں محفوظ کوچ، عمرکوچ، نیشنل پختون کوچ، نیو غازی کوچ اور دیگر کوچز کے روٹس بند ہوچکے ہیں، کوچز کی طرز پر پبلک ٹرانسپورٹ سوسائٹی کی 22سیٹوں والی گاڑیاں چلتی تھیں۔ان میں صرف 3روٹس آپریشنل باقی تمام روٹس بند ہوچکے ہیں، سابق ناظم شہری حکومت نعمت اللہ خان کے دور میں چلنے والی اربن ٹرانسپورٹ اسکیم کے تقریبا تمام روٹس بند ہوچکے ہیں اور صرف ایک روٹ UTS12پر چند بسیں چل رہی ہیں۔

سابق ناظم شہری حکومت سید مصطفی کمال کے دورمیں خریدی گئی 75 بسیں مرمت نہ ہونے کے سبب ناکارہ ہوگئیں اور اس کے تین روٹس بھی بند ہوگئے، سروے کے مطابق اس وقت شہر میں پرانی پبلک ٹرانسپورٹ کی تقریبا4ہزار گاڑیاں چل رہی ہیں۔ جن میں بسوں کی تعداد 500 ہے جبکہ منی بسیں تقریبا دوہزار سے 2200اور کوچز 1500چل رہی ہیں، ٹرانسپورٹرز کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں ڈیزل وسی این جی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث نئی سرمایہ کاری ناپید ہے جبکہ پرانے ٹرانسپورٹرز بھی کاروبار میں گھاٹے کے باعث یہ کاروبار چھوڑ رہے ہیں، وفاقی وصوبائی سرکاری اداروں کی جانب سے ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے سوتیلی ماں کے سلوک کے باعث اربن ٹرانسپورٹ اسکیم جو 2004میں متعارف ہوئی تھی ناکام ہوگئی۔سندھ حکومت نے 27جون 2022 کو پیپلز بس سروس کےنام پر بس سروس کاافتتاح کردیا۔ جس کے تحت شہرقائدکے سات روٹس پر بس چلانے کافیصلہ کرلیا۔

بسوں کاکرایہ پہلے پہل 50 روپے مقررکیا لیکن جب پیپلز بس چلنے کے بعد دیگر گئی بسیں بند ہوگئی تو نرح نامہ 50 سے بڑھا کر100 روپیہ کردیا،یوں عام شہریوں کے جیب پرڈاکا ڈالنے لگا۔۔10ستمبر 2022 کو پیپلز پارٹی نے اوریج بس لائن کے نام پر ایک بس سروس کاافتتاح کیاجو اورنگی ٹاون سے میٹرک بورڈ آفس تک چلتی ہے ۔ اس کےلیے بھی سندھ حکومت نے اربوں روپے لٹا دیے۔ سندھ حکومت کیطرف سےکئے گئے یہ اقدامات شہریوں کی سہولت کے لیے آٹے میں نمک کےبرابر بھی نہیں۔ شہری پوچھناچاہتےہیں کہ شہرکی اہم گلیوں پر چلنے والی بسوں کو بند کرکے پیپلز بس اور اورنج لائن کے نام پر بسیں چلاکر آخر کیاثابت کرنا چاہتے ہیں۔ کیا سندھ حکومت کا یہ اقدام عوام کے جیبوں پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف نہیں ہے

install suchtv android app on google app store