ین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کیلئے بجلی کی سبسڈی میں 143 ارب روپے کی کٹوتی کرنے کے ساتھ ساتھ رواں مالی سال کے دوران گردشی قرضے کے بہاؤ کو 400 ارب روپے تک محدود رکھنے کا سخت ہدف مقرر کیا ہے۔
اس فیصلے کا مقصد بجلی کے شعبے میں مسلسل بڑھتی مالی بدانتظامی کو کنٹرول کرنا ہے، جس کیلئے بہتر کارکردگی پر زور دیا گیا ہے نہ کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے پر انحصار۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ اسٹاف رپورٹ کے مطابق بجلی کی سبسڈی کا مجموعی حجم کم کر کے 893 ارب روپے کر دیا گیا ہے، جو مجموعی قومی پیداوار کا 0.7 فیصد بنتا ہے۔ اس سے قبل بجٹ میں بجلی کی سبسڈی کیلئے 1.04 کھرب روپے مختص کیے گئے تھے۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ہدف کے برعکس وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے رواں مالی سال کیلئے گردشی قرضے کے بہاؤ کا ہدف 522 ارب روپے منظور کر لیا ہے۔ ای سی سی نے یہ فیصلہ آئی ایم ایف بورڈ کے اجلاس کے ایک روز بعد کیا، جس میں پاکستان کیلئے 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی منظوری دی گئی تھی۔
آئی ایم ایف رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گردشی قرضے کے بہاؤ کا 400 ارب روپے کا ہدف مالی سال 2025 کی نسبتاً بہتر کارکردگی، بلوں کی وصولی میں بہتری اور تکنیکی نقصانات میں کمی کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ فنڈ کے مطابق اس ہدف کی نگرانی سہ ماہی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ اور ماہانہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے کی جائے گی۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ رواں سال گردشی قرضے کے دباؤ میں کسی حد تک کمی متوقع ہے، جس کی وجوہات میں صنعتی شعبے کی طلب، کیپٹو پاور پلانٹس پر لیوی، زرعی اور صنعتی صارفین کیلئے انکریمنٹل پرائسنگ منصوبہ، اور کم سودی اخراجات شامل ہیں۔
دوسری جانب ای سی سی نے اس ہفتے نئے سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان کی منظوری دیتے ہوئے 522 ارب روپے کے اضافے کی اجازت دی، جسے حکومتی مالی معاونت سے پورا کیا جائے گا۔
پاور ڈویژن کے ترجمان نے آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان اختلاف کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 522 ارب روپے میں سے 400 ارب روپے بجٹ کے ذریعے ایڈجسٹ کیے جائیں گے جبکہ 122 ارب روپے گردشی قرضے کی ری فنانسنگ اسکیم کے تحت ڈیٹ سروسنگ سرچارج سے اصل زر کی ادائیگی ہوگی۔ ان کے مطابق اس عمل سے گردشی قرضے کا مجموعی حجم تبدیل نہیں ہوگا۔
تاہم آئی ایم ایف کی اسٹاف رپورٹ میں 522 ارب روپے کے ہدف کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق 400 ارب روپے کی اسٹاک کلیئرنس سبسڈی کے ذریعے گردشی قرضے میں خالص اضافہ صفر رکھا جائے گا، جس کا مطلب یہ ہے کہ بجٹ سے نظام کی خامیوں کو پورا کیا جائے گا۔
آئی ایم ایف نے زور دیا ہے کہ اب توجہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں بلوں کی وصولی بہتر بنانے، لائن لاسز کم کرنے، نجی شعبے کی شمولیت، ہول سیل بجلی مارکیٹ کے فروغ، اور گیس کے شعبے میں آر ایل این جی کے سرپلس اور گردشی قرضے کے مسائل حل کرنے پر مرکوز ہونی چاہیے۔
رپورٹ کے مطابق 522 ارب روپے کے گردشی قرضے کے بہاؤ میں اضافے کی بڑی وجوہات لائن لاسز، عدم وصولیاں، آزاد کشمیر، سابق فاٹا، صوبائی و وفاقی اداروں، نجی صارفین اور بلوچستان کے ٹیوب ویلوں سے عدم ادائیگیاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پرانے بینک قرضوں پر سود، تاخیر سے سبسڈی کی ادائیگیاں، ٹیرف تعین میں تاخیر، کے الیکٹرک کی عدم ادائیگیاں اور دیگر ایڈجسٹمنٹس بھی اس میں شامل ہیں۔
حکومت اس وقت صارفین سے فی یونٹ 3.23 روپے گردشی قرضے کی ادائیگی کیلئے وصول کر رہی ہے اور آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ جنوری 2026 سے سالانہ ٹیرف ری بیسنگ کا عمل جولائی کے بجائے جنوری میں کیا جائے گا تاکہ صارفین پر بوجھ بتدریج ڈالا جا سکے۔